ببن میاں، اچھن میاں، چھمی بائی اور این آر او
خالد مسعود خان
کے مضمون سے انتخاب
سیاستدانوں کی ایک ویگن اس انتہائی کم اوسط آبادی والی ریاست کے ایک اور مزید دور افتادہ اور پسماندہ قصبے کی طرف رواں دواں تھی۔ وہاں یہ لوگ ریاست کی پرائمری نامزدگی والی مہم کے سلسلے میں جا رہے تھے۔ ایک چٹیل اور بے آب و گیاہ وسیع و عریض میدان سے گزرتے ہوئے ڈرائیور سو گیا۔ ظاہر ہے نہ دور دور تک کوئی آبادی تھی اور نہ ٹریفک۔ ڈرائیور کو نیند تو آنی ہی تھی۔ سو ڈرائیور سو گیا۔ ویگن کافی تیز رفتاری سے جا رہی تھی۔ ڈرائیور کے سو جانے کے باعث ویگن سڑک سے اتری‘ کنارے پر لگے ایک کھمبے سے ٹکرائی اور قلابازیاں کھاتی ہوئی دور جا گری۔
خوش قسمتی سے جائے حادثہ کے قریب ہی ایک گیس سٹیشن تھا۔ امریکہ میں پٹرول پمپ کو گیس سٹیشن کہتے ہیں۔ اس گیس سٹیشن کو ایک بوڑھا شخص چلاتا تھا۔ نزدیک ترین دوسرا گیس سٹیشن بھی نوے میل کے فاصلے پر تھا (امریکہ میں ابھی بھی فاصلہ میلوں میں اور پٹرول گیلنوں میں ناپا جاتا ہے) قریب ترین آبادی دو سو میل کے فاصلے پر تھی۔ بوڑھے نے بمشکل اور بدقت تمام سیاستدانوں کو گیس سٹیشن کے ساتھ ہی دفن کر دیا۔ جب سیاست دانوں کی گاڑی طے شدہ وقت پر نہ پہنچی تو وہاں کے لوگوں کو تشویش ہوئی۔ سب کے موبائل فون بند تھے۔ اگلے روز انہیں پتا چلا کہ وہ سب لوگ تو اپنے شہر سے ایک روز قبل روانہ ہو گئے تھے۔ اب ان کو تلاش کرتے کرتے ایک گاڑی اس جگہ آن پہنچی جہاں حادثہ ہوا تھا۔ حادثے والی ویگن دیکھ کر سب لوگ وہاں رکے اور سامنے گیس سٹیشن پر جا کر بوڑھے مالک سے حادثے کے بارے میں دریافت کیا۔ اس نے بتایا کہ کل دوپہر کو یہ حادثہ ہوا تھا۔ میرے پاس اور کوئی چوائس نہیں تھی کہ میں ان لوگوں کو دفنا دیتا۔ یہاں کوئی کولڈ سٹوریج تو تھا نہیں کہ میتیں سنبھال رکھتا۔ سو میں نے سب کو ایک اجتماعی قبر میں دفنا دیا ہے۔ آنے والی ٹیم میں سے ایک شخص نے پوچھا کہ کیا سب لوگ مر گئے تھے؟ بوڑھا کہنے لگا: میرا خیال ہے کہ سب ہی مر گئے تھے۔ ایک شخص نے پوچھا کہ اس ''خیال‘‘ سے اس کی کیا مراد ہے؟ بوڑھے نے کہا: ان میں سے تین چار کہہ تو رہے تھے کہ وہ زندہ ہیں‘ لیکن آپ کو تو بخوبی پتہ ہے کہ یہ سیاستدان سچ کب بولتے ہیں۔