خدا ہے روشنی جھونکا خدا ہے
نظر منظر ہے آئینہ خدا ہے
سُنے چیونٹی کے چلنے کی بھی آواز
فلک اونچا نہیں اونچا خدا ہے
بنائی جس نے یہ دنیا وہ دنیا
وہی میرا خدا تیرا خدا ہے
نہیں ہے نیند سے اس کا تعلق
ہمیشہ جاگنے والا خدا ہے
نہیں کچھ دسترس سے اس کی باہر
دل انسان کا ہے اور رہتا خدا ہے
وہی ماضی وہی ہے حال و فردا
زمانہ نام ہے جس کا خدا ہے
کسی نے مجھ سے جب پوچھا مظفر
دھڑک کر دل ہوا گویا, خدا ہے