ہر ایک لمحے کے اندر قیام تیرا ہے
زمانہ ہم جسے کہتے ہیں نام تیرا ہے

درائے اول و آخر ہے تو مرے مولٰی
نہ ابتدا نہ کوئی اختتام تیرا ہے

تری ثنا میں ہے مصروف بےزبانی بھی
سکوتِ وقت کے لب پہ کلام تیرا ہے

شعور نے سفرِ لاشعور کر دیکھا
تمام لفظ ہیں اسکے ’دوام‘ تیرا ہے

تمام عمر کٹے اِک طویل سجدے میں
اِس اختصار کی بخشش بھی کام تیرا ہے

بہت قریب ہے فطرت سے روحِ انسانی
ہر اِک نظام سے بڑھ کر نظام تیرا ہے

وہ خود کو جان گیا جس نے تجھ کو پہچانا
وہ محترم ہے جسے احترام تیراہے

ہر ایک سانس سے آواز آرہی ہے تری
مرا دھڑکتا ہُوا دل، پیام تیرا ہے

کہاں بیانِ مُظؔفّر کہاں بڑائی تری
جو تھا جو اب ہے جو ہوگا، تمام تیرا ہے​