ڈپریشن:کامیابی میں سب سے بڑی رکاوٹ تحریر : پرفیسر ضیا ء زرناب
دنیا بھر میں آپ کہیں بھی چلے جائیں انسان کومایوسیوں، اُداسیوں اور حسرتوں نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ انسان کو کوئی بھی بڑی سے بڑی کامیابی چند دن سے زیادہ خوشی اور اطمینان نہیں دے پا رہی۔ مقابلے کی دنیا میں وُہ جیت کر بھی ہارا ہوا اور تھکا تھکا سا دکھائی دیتا ہے۔ مسائل حل ہونے کے بعد بھی نئے نام سے آن حاضر ہوتے ہیں، غم اور تکلیفیں نام اور مقام بدل بدل کر اُس پر حملہ آ ٓورہوتی ہیں کہ ان سے جان چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے۔
صرف 40منٹ کی جسمانی مشقت یاتیز قدم چلنے سے بھی دماغ میں ڈوپامین نامی کیمیکل خارج ہوتا ہے جس سے ہمیں خوشی کا احساس ہوتا ہے 25فی صد پاکستانیو ں نے زندگی میں ایک سے زائد مرتبہ ڈپریشن کاسامنا کیا ہوتا ہے روزانہ 7گھنٹے سونے کے دوران میلاٹونن اور سیراٹونن نامی کیمیاوی مادے ذہنی طور پرتر و تازہ کر دیتے ہیں کچھ لوگ مقابلے کی دنیا میں جیت کر بھی ہارے اور تھکے تھکے سے دکھائی دیتے ہیں
85 سے90فیصدماہرین ورزش کو بطورعلاج تجویز کرتے ہیں
زندگی اپنے معانی اور لطافت کھو چکی ہے اور اِسے مادی دولت کمانے کی بے ہنگم دوڑ سمجھ لیا گیا ہے جس کا اختتام سوچے بغیر ہی رفتار کو اور تیز کیا جارہا ہے اور جذبوں کو اور مہمیز کیا جا رہا ہے۔چیزوں کے حصول کوکامیابی گردانا جاتا ہے اور اس عمل میں اپنے لوگوں، رشتوں اور تعلقات کوبھی ہار دینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ انسان اتنا مصروف ہے کہ اِسے دوسروں کے لئے تو کیا اپنے لئے بھی وقت نہیں ملتا۔زیادہ سے زیادہ کمانے،جدید سے جدید دکھانے اور اعلیٰ سے اعلیٰ بنانے کی دوڑ نے فرد کی ذات میں مصنوعی پن اس قدر بھر دیا ہے کہ سطحی زندگی جینا اس کا مقدر بن گیا ہے۔
زندگی کے بڑے نصب العین کے لئے جینا چھوڑ دیا گیا ہے، اعلیٰ اخلاقی اصولوں کو موت آچکی ہے اور اِن کی جگہ عامیانہ ہیجانات سے بھرپور اُن بے معنی اور لا یعنی مقاصد نے لے لی ہے جنہیں پا کر بھی انسان پُژ مردگی اور زندگی کی بے معنویت سے باہر نہیں نکل پاتا۔اُداسیاں چلتے چلتے ایک دن انسان کو مایوسیوں کے اُس گڑھے میں گرا دیتی ہیں کہ جس کے آخری کنارے پر انسان اپنی ہی جان لینے پر بھی آمادہ ہو جاتا ہے ۔خودکشی کے خیال ہر وقت اُس کے ذہن و دل پر چھائے رہتے ہیںیعنی وُہ جینے کی بجائے مرنے کو ترجیح دیتا ہے۔
اس لئے لازم ہے کہ ڈپریشن کو نہ صرف سمجھا جائے بلکہ اس کی علامات ظاہر ہوتے ہی فوری اس کا تدارک کیا جائے تاکہ معانی اور مقاصد سے بھرپور زندگی کو جیا جاسکے۔ پاکستان میں تو ڈپریشن کے مرض میں مبتلا لوگوں کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ معاشی، معاشرتی، اخلاقی، اور تعلیمی زوال نے لوگوں کی ذہنی صحت کو بھی تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہرچوتھا پاکستانی اس مرض میں مبتلا ہے یعنی تقریباً23سے 25فی صد پاکستانیو ں نے زندگی میں ایک سے زائد مرتبہ ڈپریشن کا کسی نہ کسی طرح سامنا کیا ہوتا ہے یا پھر ان میں ڈپریشن اور انزائٹی کی علامات اس درجہ پر موجود ہوتی ہیں کہ ان کوفوری طور پر ماہرین سے رابطہ کرنا چاہئیے۔
اگر ڈپریشن کی علامات وقت کے ساتھ ساتھ کم ہو کر ختم ہو جائیں یا اتنی زیادہ شدت سے ظاہر نہ ہو ں کہ فرد کی نارمل زندگی کو متاثر کریں تو اسے نارمل ڈپریشن Normal Depressionکہتے ہیں۔اگر فرد کی زندگی رک کر رہ جائے اور وُہ کسی بھی کام پر توجہ مرکوز نہ کر سکے تو اسے فوری طور پر دوائیوں اور سائیکو تھراپی کی ضرورت ہوتی ہے اِسے کلنیکل ڈپریشن Clinical Depression کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اس صورت میں مرض پُرانا ہو چکا ہوتا ہے اور اس کی شدت میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہوتا ہے۔
ڈپریشن کی علامات:جب فرد کو ڈپریشن گھیر لیتا ہے تو فرد کو سمجھ نہیں آتی کہ کرے تو کرے کیا؟جائے تو جائے کہاں؟ اُسے اُداسیاں چاروں طرف سے گھیر لیتی ہیں، کسی کام اور فرد میں کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہوتی، جسم ہر وقت تھکا تھکا سا رہتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی نے جسم سے ساری توانائی اور طاقت نچوڑ لی ہو، کسی کام یا پراجیکٹ پر توجہ مرکوز کرنا تقریباً نا ممکن لگتا ہے، بے معنی اور فضول سوچوں میں فرد ہر وقت اُلجھا رہتا ہے، راتوں کو نیند نہیں آتی، ہر وقت جسم میں درد، اینٹھن اور تکلیف سی رہتی ہے جو مستقل بے اطمینانی اور بے سکونی کی وجہ بنتی ہے، بھوک یا تو مر جاتی ہے یا پھر ہر وقت کھانے کی اشتہا ء بڑھ جاتی ہے، زندگی اس قدر بے معنی اور فضول لگتی ہے کہ فرد اپنی ہی جان کے درپے ہو جاتا ہے اور اس ختم کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگتا ہے، تھکان اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ اپنے وجود کو اُٹھانا بھی مشکل لگتا ہے،فرد میں بے چینی اور چڑ چڑا پن بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے،سر اور پیٹ میں مستقل بنیادوں پر درد کا احساس ہوتا ہے،دوسروں سے تعلقات میں گرمجوشی کی جگہ سردمہری آجاتی ہے۔
زندگی میں خالی پن ہر طرف محسوس ہوتا ہے۔خود اعتمادی اور اپنی تکریمَِ ذات کا درجہ بہت نیچے چلا جاتا ہے۔فرد میں جارحیت کا عنصر بہت بڑھ جاتا ہے اور وُہ اپنی بات پر بلا وجہ اڑ جاتا ہے۔ فرد کی یہ کیفیات بعض اوقات تو اُسے خودکشی کی جانب بھی مائل کر دیتی ہیں یا پھر وُہ دوسروں کو نقصان پہنچانے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ مگر عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ 85سے90فی صد کیسز میں لوگ ایسا کوئی بھی کام کرنے کیلئے کچھ عرصے پہلے اپنے قریبی لوگوں میں اس بارے میں بات چیت شروع کردیتے ہیں۔ اس لئے کبھی بھی کوئی فرد آپ کے ارد گرد میں کوئی ایسی بات کرے تو اِ سے خطرے کی گھنٹی جان کر فوراً پیشہ وارانہ مدد طلب کریں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ ماہرینِ نفسیات کا ماننا ہے کہ ایسی کیفیات اگر مسلسل د و سے چار ہفتے تک رہیں تو پھر ہی اسے ماہرین مکمل سائنسی تجزیے کے بعد ڈپریشن کا نام دیا جاتا ہے۔
عموماً دیکھا گیا ہے کہ لوگ بلا سوچے سمجھے فرد کی ذرا سی اُداسی اور بے چینی کو ڈپریشن کا نام دے دیتے ہیں۔ملک کے معروف سائیکاٹرسٹ جنا ب ڈاکٹر نویدالحق رامے صاحب کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کے مرض میں تین بڑی نشانیوں پر توجہ ضروری ہے ان کے خیال میں ڈپریشن کے شکار لوگوں کی پہلی نشانی یہ ہے کہ جس کام یاپروفیشن میں کسی فرد کو بہت مزہ آتا ہو لیکن یہ لطف ختم ہو جاتا ہے۔دوسری نشانی یہ ہے کہ بھوک اور نیند مر جاتی ہے یا بڑھ جاتی ہے، تیسری نشانی یہ ہے کہ مزاج ہر وقت بگڑے رہتے ہیں کیوں کہ فرد میں سے توانائی ختم ہو جاتی ہے اورسوچ بکھر جاتی ہے ۔اِنکا دورانیہ دو ہفتے سے بڑھ جائے تو پیشہ ور ماہرین سے رابطے میں دیر نہیں کریں تاکہ مرض ابتداء میں ہی کنٹر و ل ہو جائے۔ ڈپریشن کا علاج میں مندرجہ ذیل سات اصولوں جن کی بنیاد سائنسی تحقیق اور نتائج پر رکھی گئی ہے کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے تاکہ آپ نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر بھی صحت مند اور توانا زندگی گذار سکیں۔
اپنی خوراک ، ورزش اور نیند کا خیال رکھیں: صحت مند زندگی کیلئے تین چیزوں کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ اور یہ تین چیزیں خوراک ، ورزش اور نیند ہیں۔ ذہنی صحت میں خرابی کا آغاز ان تینوں میں مقررہ شیڈیول میںتبدیلی اور خرابی سے ہوتی ہے۔ فرد کی بھوک مر جاتی ہے یا بڑھ جاتی ہے اور نیند کا حشر بھی اس سے مُختلف نہیں ہوتا ۔ 85 سے90فیصد سائیکولوجسٹ ورزش کو اپنے مریضوں یعنی کلائنٹس کو بطور ٹریٹمنٹ تجویز کرتے ہیں۔ اور اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ ورزش فرد کے ڈپریشن کے تینوں بڑے مسائل کے حل یعنی بھوک کو متوازن کرنے ، خوراک کو صحتمند بنانے اور نیند لانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔علم ِ نفسیات میں سینکڑوںسائنسی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ورزش کی بدولت مزاج یعنی موڈکوکنٹرول میں بہت زیادہ مدد ملتی ہے۔
کیونکہ صرف 40منٹ سے ایک گھنٹے کی جسمانی مشقت اور محنت یہاں تک کہ تیز قدم چلنے سے بھی دماغ میں ڈوپامین نامی کیمیکل خارج ہوتا ہے جس سے ہمیں خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ اس لئے ہر روز ہر فرد کا چالیس منٹ سے لے کر ایک گھنٹے تک ورزش لازمی کرنی چاہیئے تا کہ فرد خوش اور صحتمند زندگی گذار سکے۔ڈپریشن کا سب سے اچھا توڑ یہ ہے کہ آپ 7سے8گھنٹے روزانہ سوئیں۔اس مقدار میں نیند کے دوران میلاٹونن اور سیراٹونن نامی کیمیاوی مادے نا صرف آپ کو ذہنی طور پر فریش کر دیتے ہیں بلکہ آپ کو جسمانی طور پر بھی دوبارہ چاک و چوبند بنا دیتے ہیں۔ اپنی خوراک میں چینی ، چکنائی،چسکے دار چیزیں جیسے جنک فوڈ، چائے ، اور چاول کو کم سے کم رکھیں کیونکہ ان سے ڈپریشن ہونے اور وزن میں اضافے کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔
جذباتی توازن قائم کریں:کسی سانحے یا حادثے کی صورت میں فرد کو اِسے بھلا یا اپنی ذات کا چھوٹا سا حصہ بناکے آگے بڑھنا ہوتا ہے۔کسی کی موت کا سانحہ ہو یا کسی پیارے کی وقتی جدائی، گھریلو مشکلیں ہو یا کاروباری پریشانیاں، حادثوں میں نقصانات ہوں یا دفتروں کی تنگیاں، ان سب صورتوں میں فرد کو اپنی ذات میں توازن لانا ہوتا ہے کہ ان سے بہ آسانی نپٹ لے اور زندگی میں آگے بڑھ جائے۔
منفی خودکلامی کو خدا حافظ کہہ دیں: دنیا میں ہر انسان اپنے آپ سے باتیں کرنا پسند کرتاہے۔ ہمارے دماغ کی ساخت ایسی ہے کہ ہم ہر وقت منفی سوچوںمیں گھرے اور اُلجھے رہتے ہیں۔ منفی سوچیں آتی ہیں اور مثبت سوچیں لانی پڑتی ہیں۔ جب بھی ذہن میں کوئی منفی سوچ آئے تو اسے فوراً مثبت سوچ سے تبدیل کر دیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ آپ منفی سوچوں کو دبانے کی جتنی کوشش کریں گے وُہ اُتنی ہی شدت سے آپ کے دل و دماغ میں پلٹ کر قبضہ جما لیں گی۔ مثبت سوچوں کو اپنی عادت بنا لیں کہ آپ چاہ کر بھی منفی نہ سوچ سکیں۔ اس کے لئے آپ کو شعور ی طور پر کاوش کرنا ہوگی۔ دنیا میں 95 سے 98فی صد لوگ دماغ میں خود بخود آنیوالی سوچوں کے غلام ہوتے ہیں۔ نفسیات دانوں کا خیال ہے کہ دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک کام اپنی سوچوں پر قا بو پا کر ان کو اپنا غلام بنانا ہے یعنی دماغ کا آقا بن کر جینا دنیا میں بہت مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے۔
مراقبہ یا یوگا کیجئے:ڈپریشن بھگانے کا سب سے کارگر نُسخہ یہ ہے کہ آپ ایسی مشقیں کریں کہ جس میں آپ کو اپنے سانس لینے پر کنٹرول ہو جائے۔آہستہ سان لینا فرد کی نہ صرف زندگی بڑھاتا ہے بلکہ اُس کی ذہنی اور جسمانی صحت کو بھی بہتر بناتا ہے۔ سائنسی طور پر یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جو لوگ بھی سانس سینے سے لیتے ہیں ان کے تشویش یعنی انزائٹی اور ڈپریشن میں گرفتار ہو جانے کے چانسز بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لئے اکثر نفسیات دا ن یہ تجویز کرتے ہیں کہ آپ شعوری طور پر پیٹ سے سانس لینے کی مشق کریں جس سے ڈپریشن اور انزائٹی میں فور اور دیرپا کمی واقع ہوتی ہے۔
سانس کی رفتار جتنی دھیمی اور آہستہ ہوتی جائے گی فرداس قدر جسمانی اور ذہنی امراض سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کے لئے ایک چھوٹی سی مشق کریں تاکہ آپ یوگا اور مراقبہ کو اپنی زندگی کا لازمی جزو بنانے میں کسی قسم کا تامل اور سستی نہ کریں۔ اس طریقے میں آنکھیں اور منہ بند کر لیں اورناک سے ایک لمبا سانس اندر کھینچیں۔اس پانچ گننے تک روکے رکھیں اور آہستہ آہستہ جتنا سکون سے ممکن ہو منہ سے خارج کریں۔ اس دوران دماغ میں کسی ایسی پرفضا ء اور صحت مند جگہ کو سوچیں جہاں آپ نے پہلے ہی وزٹ کر رکھا ہو ۔ آپ دیکھیں گے کہ صرف دس مرتبہ ایسا کرنے سے آپ پُرسکون محسوس کریں گے ۔ آزمائش شرط ہے۔ نماز میں ارتکازِ توجہ سے اللہ کا ذکر آپ کو سکون کی ان وادیوں میں لے جائے گا جہاں اُداسیوں اور مایوسیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔
خیر کے کاموں میں اپنے آپ کو مشغول رکھیں: ۔ بڑے بزرگ اکثر کہا کرتے ہیں کہ خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے۔ اس لئے ہر وقت وُہ کچھ نہ کچھ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ سائنسی تحقیقات میں یہ بات ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جن لوگوں کی زندگی میں کچھ چیلنجز بھرے کام ہوتے ہین اُن کے کسی قسم کی نفسیاتی بیماریوں میں گرفتار ہونے کے چانسز نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے جب ہمارا ذہن اور دماغ مسائل کے حل میں سرگرداں ہوتا ہے تو اُس میں سے ایسے کیمیاوی مادے خارج نہیں ہوتے جو ڈپریش اور انزائٹی کی وجہ بنتے ہیں ۔ خاص طور پر فرد کے ذہن میں کارٹی سول نامی مادہ نہیں بنتا جو بہت سی ذہنی بیماریوں کی جڑ ہے۔ اس لئے سیانوں جو بیکار سے بیگار بھلی کا جو مشورہ دیا ہے وُہ بالکل ٹھیک ہے کہ جس کی افادیت سائنسی طور پر بھی مسلمہ ہے۔
مگر اگر آپ دوسروں کی بے لوث خدمت اور خیر کے کاموں میں اپنا وقت صرف کر رہے ہیں تو طے شدہ سائنسی حقیقت ہے کہ ڈپریشن کی علامات میں دوفوری کمی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ اگر آ پ کو یقین نہیں آتا تو کسی ادارے میں لوگوں کی فلاح و بہبود کے کسی پراجیکٹ میں بطور رضاکار کچھ وقت دے کر آزما لیں۔ نتائج آپ کو حیران کر دیں گے۔
میوزک یا تفریح سے لطف اندوز ہوں:زندگی میں مثبت سرگرمیوں کی افادیت سے کسے انکار ہے ؟اپنے آپ کو تازہ دم اور فریش رکھنے کے لئے لازمی ہے کہ آپ ہر ہفتے کچھ نہ کچھ وقت اپنے اور خاص طور پر اپنی فیملی کے ساتھ کچھ وقت ضرور گذاریں۔
پروفیشنل مدد طلب کریں:اگر آپ یہ محسوس کریں کہ آپ کی پوری کوشش کے باوجود آپ میں مایوسی اور اُداسی کی علامات تین چار ہفتے تک قائم ہیں اور ان میں کوئی کمی نہیں آرہی تو فوری طور پر ماہرین نفسیات اور سائیکاٹرسٹ سے رابطہ کریں۔ اس میں ہرگز نہ گھبرائیں اور شرمائیں کیونکہ جس طرح ہمارے جسم میں کہیں درد ہو تو ہم ڈاکٹر سے دوا لیتے ہیں اوراپنی مرض کا علاج کرتے ہیں اسی طرح ہم ذہنی امراض میں بھی ماہرین سے رابطہ کرکے اپنی مرض کو ابتداء میں کنٹرول کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں وقوفی کرداری یعنی Cognitive Behaviour Therapy کو سائنسی طور پر بھی مستند اور قابل ِبھروسہ مانا جاتا ہے کہ جس کے 15سے20سیشن میں ہی فرد کی جسمانی اور ذہنی حالت ٹھیک ہو جاتی ہے۔ لہذا جب بھی آپ کو لگے کہ آپ کے ذہنی مسائل ہیں تو فوراًپیشہ وارانہ مدد طلب کریں تاکہ بروقت علاج سے کھوئی ہوئی صحت فوری طور پر بحال ہو سکے۔ ٭٭٭