امیر خسرو کے اساتذہ
23275 49622336 - امیر خسرو کے اساتذہ
معین الدین عقیل
امیر خسرو نے ہوش سنبھالا تو تعلیم کے لیے مکتب میں بٹھا دیے گئے۔ جب وہ آٹھ سال کے ہوئے تو ان کے والد ایک معرکے میں شہید ہوگئے۔ ان کی شہادت کے بعد وہ اپنے نانا عماد الملک کی نگرانی اور سرپرستی میں آ گئے۔ یہ سرپرستی ان کے لیے فال نیک ثابت ہوئی۔ عمادالملک سلطنت کے ممتاز امرا میں تھے۔ التتمش کے عہد سے غیاث الدین بلبن کے عہد تک ’’عرض ممالک‘‘ کے عہدے پر فائز رہے۔ بلبن کے دور میں عمادالملک کا شمار سلطنت کے چار بڑے ستونوں میں ہوتا تھا۔ ان کے دربار کے تمام آداب اور لوازمات بڑے بڑے امرا اور بادشاہوں کے دربار ہی کی طرح تھے۔ اس میں علما، شعرا اور اربابِ نشاط سب ہی شریک رہتے۔ اسی امارت و ثروت سے مامور ماحول میں امیر خسرو کی پرورش ہوئی۔ ان محفلوں میں امیر خسرو کو علم و ادب اور موسیقی کے ذوق کی نشوونما میں بڑی مدد ملی اور ان کی تعلیم و تربیت، جو ان کے والد کی بے وقت وفات سے ممکن تھا کہ ناقص اور نامکمل رہ جاتی، برابر جاری رہی۔ امیر خسرو نے ان تمام علوم و فنون میں، جو ان کے زمانے میں رائج تھے، اتنی دسترس حاصل کر لی تھی کہ انہیں کبھی کم علمی کی وجہ سے شرمندگی کا موقع پیش نہیں آیا۔ امیر خسرو نے اپنے درسی علوم کی تحصیل کی بابت صرف اپنے دیباچے ’’تحفۃ الصغر‘‘ میں مختصر طور پر ذکر کیا ہے۔ ان کے والد کی عین خواہش تھی کہ خسرو ’’بے حاصل‘‘ کچھ حاصل کریں۔ وہ جب سن تمیز کو پہنچے تو مکتب میں داخل کر دیے گئے اور ساتھ ہی کچھ علما گھر پر تدریس کے لیے مقرر کیے گئے، لیکن اب ان علما کے بارے میں معلومات نہیں ملتیں۔ امیر خسرو نے اس دور کے اپنے صرف ایک استاد خواجہ سعدالدین محمد کا ذکر کیا ہے، جنہیں ’’قاضی‘‘ کہا جاتا تھا۔ وہ انہیں خطاطی سکھاتے تھے۔ اس سے زیادہ کچھ علم نہیں کہ وہ ایک ماہر خطاط تھے۔ قاضی سعدالدین کے نام کے ساتھ لفظ ’’قاضی‘‘ ظاہر کرتا ہے کہ وہ خطاطی کے علاوہ دیگر علوم میں درک رکھتے تھے۔ خسرو اپنے دیباچے ’’تحفۃ الصغر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ان کے استاد ان کو خطاطی سکھانے میں ان کی پیٹھ پر درے لگاتے، لیکن ان کے سر پر زلفِ پیچاں کا سودا ایسا سمایا ہوا تھا کہ وہ لکھنے پڑھنے کی طرف کم مائل رہے، اور شعر گوئی کی دھن میں جو کچھ موزوں ناموزوں کہہ لیتے تھے، اسی کی مشق وصلیوں پر کیا کرتے تھے۔ اسی دیوان کے دیباچے میں اپنے بچپن کے جو بعض دلچسپ حالات لکھے ہیں، ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شاعری کا مادہ ان میں پیدائشی تھا اور بہت کم سنی میں وہ ایسی آسانی سے شعر موزوں کر لیتے تھے کہ سننے والے تعجب کرتے۔ ایک دوسری جگہ ’’دیباچہ دیوان غرۃ الکمال‘‘ میں بھی لکھتے ہیں کہ ’’میرے دودھ کے دانت بھی نہیں ٹوٹے تھے کہ میں نے شعر گوئی کی ابتدا کی‘‘۔ اسی دوران وہ اپنے استاد قاضی سعدالدین کے توسط سے قاضی عزالدین سے متعارف ہو چکے تھے جو اس وقت علم و فضل میں بڑی شہرت رکھتے تھے۔ قاضی عزالدین نے خسرو کی استعداد کو دیکھ کر انہیں ’’سلطانی شمسی‘‘ کی مناسبت سے ’’سلطانی‘‘ تخلص رکھنے کا مشورہ دیا۔ خسرو نے وقتی طور پر ان کا یہ مشورہ قبول کر لیا تھا، چنانچہ ’’دیوان تحفۃ الصغر‘‘ کی متعدد غزلوں میں یہی تخلص ملتا ہے۔ بارہ سال کی عمر میں خسرو میں اتنی غیر معمولی قابلیت پیدا ہو گئی تھی کہ فارسی شاعری کے استاد مثلاً انوری، خاقانی اور سنائی وغیرہ کے کلام کا مطالعہ کر سکتے تھے۔ پھر اسی صغر سنی میں ان اساتذہ کے فن کے تتبع میں شعر بھی کہنے شروع کر دیے تھے۔ 16 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے امیر خسرو نے شاعری میں اچھی خاصی مہارت پیدا کر لی تھی اور اس زمانے میں ان کے اشعار کچھ ایسے مقبول ہوئے کہ گویے مجلسوں میں گانے لگے اور جن کو سن کر بڑے بوڑھے وجد کرتے تھے۔ پھر وہ جب بیس ہی سال کے تھے تو ایک دیوان ’’تحفۃ الصغر‘‘ کے نام سے مرتب کر لیا، جس میں تقریباً 35 قصیدے، پانچ ترکیبِ بند، کچھ متفرقات اور ایک مثنوی ہے۔ شاعری میں ابتداً امیر خسرو نے اپنی غیر معمولی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر کسی کو اپنا استاد نہیں بنایا تھا۔ شروع میں بطورِ خود کہتے رہے، پھر کسی استاد سے مشورہ لینے کے بجائے اساتذہ کے دوادین کو سامنے رکھ کر ان کا تتبع کیا کرتے، لیکن بالآخر وہ اپنا کلام اساتذہ کو دکھانے لگے۔ اپنی مثنوی ’’ہشت بہشت‘‘ کے خاتمے میں وضاحت کی ہے کہ یہ کتاب مولانا شہاب الدین مہمرہ کی اصلاح یافتہ ہے۔ بعض مصنفین کی جانب سے مولانا شمس دبیر کا ذکر بھی امیر خسرو کے استاد کی حیثیت سے کیا گیا ہے۔ شمس دبیر کا پورا نام شمس الدین اور سنام ان کا وطن تھا… شمس دبیر اپنے وقت کے قادرالکلام اور ممتاز شاعر تھے۔ خسرو مولانا شمس دبیر کو عقیدت اور احترام کا درجہ دیتے تھے۔ صغر سنی ہی میں ایک قصیدہ ان کی مدح میں لکھا تھا۔ ’’دیباچہ دیوان غزۃ الکمال‘‘ میں بھی خسرو نے شمس دبیر کی مداح کی ہے، جس پر شمس دبیر کو بھی فخر تھا۔ سعید احمد مارہروی نے اپنی تصنیف ’’حیات خسرو‘‘ میں اور قاضی اختر جونا گڑھی نے اپنے مضمون ’’امیر خسرو اور تصوف‘‘ میں خواجہ شمس الدین خوارزمی کو بھی امیر خسرو کا استاد قرار دیا ہے۔ ان مذکورہ اساتذہ کے علاوہ خسرو کے پیرِ طریقت حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کا ذکر ضروری ہے، جنہوں نے راہِ سلوک میں خسرو کی رہنمائی کی اور انہیں مستفیض کیا اور جن کا فیض خسرو کی شاعری میں جاری و ساری رہا۔ (’’امیر خسرو: فرد اور تاریخ‘‘ سے اقتباس)