مینا کماری کی شاعری ماہ جبیں ناز نے اداکاری کی طرح شاعری میں بھی نام کمایا
عبدالحفیظ ظفر
بھارتی فلموں کی تاریخ میں جہاں کئی ایسے اداکاروں کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے اپنی زبردست اداکاری سے اپنا نام کا سکہ جمایا اور آج بھی اُن کا نام زندہ ہے۔ ان کے مداحین کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ اداکاری کے شہنشاہ دلیپ کمار کو ٹریجیڈی کنگ (Tragedy King) کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک اداکارہ ایسی بھی تھیں جنہیں ٹریجیڈی کوئین (Tragedy Queen) کا خطاب دیا گیا۔ یہ اداکارہ تھیں مینا کماری۔ مینا کماری کا اصل نام ماہ جبیں بانو تھا۔ انہوں نے چھ سال کی عمر سے ہی اداکاری شروع کر دی۔ قدرت نے انہیں بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ ان کی آواز بھی غضب کی تھی۔ وہ المیہ اداکاری میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں۔ لیکن اداکارہ کے ساتھ ساتھ وہ گلوکارہ اور ایک عمدہ شاعرہ بھی تھیں۔ انہوں نے ماہ جبیں ناز کے نام سے شاعری کی۔ ناز اُن کا تخلص تھا۔ انہوں نے غزلیں بھی لکھیں اور بڑی متاثر کن نظمیں بھی تخلیق کیں۔ مینا کماری کی ذاتی زندگی بھی کسی داستانِ الم سے کم نہ تھی۔ انہوں نے نامور شاعر اور ہدایت کار کمال امروہوی سے شادی کی لیکن یہ شادی کامیاب نہ ہو سکی۔ کئی لوگ ا لزام عائد کرتے ہیں کہ مینا کماری نے کئی مسائل خود پیدا کئے اور زندگی میں جن مصائب اور دکھوں کا انہیں سامنا کرنا پڑا کافی حد تک ان کی ذمہ دار وہ خود بھی تھیں۔ بہرحال اُن کی شاعری میں وہ سوز ملتا ہے، عمر بھر وہ جس کی آگ میں جلتی رہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مینا کماری جب تک زندہ رہیں زندگی کے معنی تلاش کرتی رہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ عمر بھر محبت کی متلاشی رہیں۔ ان کی محرومیوں نے اُن کی نفسیات پر گہرا اثر چھوڑا اور ان کی شاعری میں اس کا بھرپور عکس ملتا ہے۔ مینا کماری کی شاعری درد اور یاسیت کی چادر میں لپٹی ہوئی ہے۔ ان کے اشعار سے اُداسیوں کی مہک آتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بعض تجربات کو بڑے لطیف پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ کہیں کہیں نکتہ آفرینی بھی ملتی ہے۔ تراکیب کا استعمال بھی بڑی خوبصورتی سے کیا گیا ہے۔ ان کے شعری مجموعے ’’تنہا چاند‘‘ کے عنوان سے ہی یہ پیغام مل جاتا ہے کہ وہ تنہائیوں کے دشت میں رہ کر انجمن کا مفہوم سمجھنے کی سعی کر رہی ہیں۔ لیکن شاید وہ اِس حقیقت سے بھی آشنا ہیں کہ اگر تنہائی کا اپنا ایک دکھ ہے تو اس کا اپنا حُسن بھی ہے۔ مینا کماری کے ہاں ندرتِ خیال بھی بڑے خوشگوار انداز میں ملتا ہے۔ ’’دُکھ کی گھٹا‘‘، ’’درد کے سائے‘‘ ’’اُداسی کا دھواں‘‘ اور ایسی ہی کئی اور تراکیب ہیں جن سے اس نظریئے کو تقویت ملتی ہے کہ یاسیت کا اندھیرا جب بہت زیادہ بڑھ جائے تو پھر رجائیت کی روشنی بھی ختم ہوتی جاتی ہے۔ اور اگر کسی وجہ سے اپنے آپ کو دلاسا اور حوصلہ دیا جائے تو ایک موہوم سی رجائیت کا جنم ہوتا ہے لیکن ہمیں ایسی رجائیت درکار نہیں۔ رجائیت وہ جو حیات افروز ہو اور جو ہر سمت زندگی اور روشنی کے امکانات پیدا کرے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مینا کماری عمر بھر سچی محبت تلاش کرتی رہیں تو یہ اپنی جگہ ایک المیہ ہے۔ اس بات میں کسی حد تک صداقت بھی ہے کیونکہ اس کا اظہار اُن کی فلم ’’صاحب بی بی اور غلام‘‘ میں بھی بڑے بھرپور طریقے سے ملتا ہے۔ یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ شاعری میں مینا کماری کے اُستاد گلزار ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ بات درست ہو۔ مینا کماری کی چھوٹی بحر کی غزلوں سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ اُن کے تحت الشعور میں گلزار کا شعری آہنگ رچا بسا ہے۔ اور پھر اُن کے کئی اشعار سہلِ ممتنع کے زمرے میں آتے ہیں۔ گلزار کے ہاں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ویسے تو مینا کماری کی غزلیات پر ہی بات کی جاتی ہے لیکن ان کی نظمیں بھی فکری توانائی سے معمور ہیں۔ ذیل میں اپنے قارئین کی خدمت میں مینا کماری کی غزلوں کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔ آبلا پا کوئی اِس دشت میں آیا ہو گا ورنہ آندھی میں دیا کس نے جلایا ہو گا بہتی ہوئی یہ ندیا، گھلتے ہوئے کنارے کوئی تو پار اترے، کوئی تو پار گزرے کہیں کہیں کوئی تارا، کہیںکہیں جگنو جو مری رات تھی وہ آپ کا سویرا ہے عیادت کو آئے شفا ہو گئی مرح روح تن سے جدا ہو گئی چاند تنہا ہے آسماں تنہا دِل ملا ہے کہاں کہاں تنہا زندگی کیا اِسی کو کہتے ہیں جسم تنہا ہے اور جاں تنہا یہ نہ سوچو کل کیا ہو کون کہے اِس پل کیا ہو مینا کماری کی بے مثال اداکاری کی طرح اُن کی شاعری بھی اثر آفریں ہے۔ وہ واقعی ایک نادرِ روزگار خاتون تھیں۔ ٭…٭…٭