دعا اور رمضان
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ” کسی دوسرے کو دعا مانگنے کا کہنے سے بہتر ہے کہ ایسے کام کرو کہ دوسرے کے دل سے خود تمھارے لیے دعا نکلے۔“ بلاشبہ انسان فطری طورپر خود غرض واقع ہوا ہے، اس لیے وہ خوامخواہ کسی دوسرے انسان کے لیے دعا نہیں کرتا ۔ہاں ایک راستہ ہے جسے اختیار کر کے ہم دوسرے کے دل کی گہرائیوں سے اور بے اختیار نکلی ہوئی دعاکے حق دار بن سکتے ہیں اوروہ ہے حسن اخلاق ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی ذات کے خول سے باہر نکلیں۔ دوسروں کے کام آئیں ۔ دوسروں کے لیے ہر ممکن مدد کریں۔ دوسروں میں خوشیاں بانٹیں۔دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیریں۔ اگر لوگوں کی پریشانی ختم نہیں کر سکتے تو کم کرنے کی کوشش کریں۔ کسی غریب کے بچے کی فیس ادا کر دیں۔ کسی بیمار کا علاج کرا دیں۔ اگر کوئی ہم سے ناراض ہے تو چاہے ہم حق ہی پر کیوں نہ ہوں، اس سے معافی مانگ لیں، اسے منا لیں۔ اپنی انا کو ختم کر کے صلح میں پہل کریں ۔ دوسروں کی زندگی اگر اپنی وجہ سے اچھی نہیں بنا سکتے تو مشکل بھی نہ بنائیں۔ سڑک پر دوسروں کو راستہ دے دیں۔ کسی کے راستے کا پتھر ہٹا دیں۔ اپنے ملازمین پر کام کا بوجھ کم کر دیں۔ جب رمضان میں افطار کریں تو کسی غریب کو بھی افطار میں شامل کریں۔ عید کی خریداری کرتے وقت کچھ نئے کپڑے کسی غریب کو بھی لے دیں۔ ایسے بہت سے رویے ہیں جنھیں اپنا کر ہم دوسرے کا دل جیت سکتے ہیں او ر اسے بغیر کہے اپنے لئے دعا گو ہونے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔ آئیے اس رویے کو رمضان کے بابرکت مہینے ہی میں اختیار کر لیںکیونکہ ان دنوں دعاکی تاثیر زیادہ ہوتی ہے