اکیسویں پارے کا خلاصہ علامہ ابتسام الہٰی ظہیر

اکیسویں پارے کا آغاز سورہ عنکبوت سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حبیبؐ سے فرماتے ہیں کہ جو کتاب آپ پر نازل کی گئی ہے‘ اس کی تلاوت کریں اور نماز قائم کریں‘ بیشک نماز فحاشی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ آپ پہلے سے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے ‘نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے ‘ورنہ اہل باطل شک کرتے ۔اللہ کے حبیب نے کسی مکتب یا مدرسے سے تعلیم حاصل نہیں کی؛اگر آپ لکھنا پڑھنا جانتے ہوتے تو اہلِ باطل کے شک میں کوئی وزن ہوتا ‘لیکن آپﷺ کا بغیر کسی سابقہ تعلیم کے قرآن مجید جیسی کتاب کو پیش کرنا اس امر کی واضح دلیل ہے کہ آپ اللہ کے نبی اور اس کے سچے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ یہ واضح آیات ہیں‘ جن کو اللہ تعالیٰ نے اہل علم کے سینوں میں محفوظ فرمادیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کی آیات سے جھگڑنے والے لوگ ظالم اور کافر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں مشرکینِ مکہ کی بد اعتقادی کا ذکر کیا کہ جب وہ سمندروں میں ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کو پورے اخلاص سے پکارتے ہیں اور جب خشکی پر ہوتے ہیں تو وہ شرک کا ارتکاب اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں‘ جو لوگ میرے راستے میں جدوجہد کرتے ہیں میں ان کو اپنا راستہ ضرور دکھائوں گا اور بے شک اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔سورہ عنکبوت کے بعد سورہ روم ہے۔ یہ سورت اس وقت نازل ہوئی جب روم کے اہلِ کتاب کو ایران کے آتش پرستوں سے شکست ہوئی۔ کفار مکہ ایرانیوں کی اس فتح پر دلی طور پر بہت خوش تھے ۔اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں مومنوں کی دل جوئی کیلئے اس امر کا اعلان فرمایا کہ اہل روم مغلوب ہوگئے‘ قریب کی سرزمین (شام)میں اور اپنی مغلوبیت کے بعد چند ہی سالوں میں غالب آئیں گے۔ پہلے بھی ہر چیز کا اختیار صرف اللہ کے پاس تھا اور بعد میں بھی صرف اسی کے پاس رہے گا اور اس دن مومن خوش ہوجائیں گے۔
جب ان آیات کا نزول ہوا مشرکین مکہ نے ظاہری حالات کو دیکھتے ہوئے اس کو ناممکن خیال کیا۔ابی بن خلف تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ شرط لگا نے پر اتر آیا کہ ایسا ہونا نا ممکن ہے ۔کافر اللہ تعالیٰ کی طاقت اور اختیارات سے نا واقف تھے‘ اس لیے کہ ان کی نگاہ صرف ظاہری حالات پر تھی ۔اللہ تعالیٰ نے ہجرت سے ایک سال قبل ایرانیوں کو کمزور کرناشروع کردیا اور 2ہجری میں ایرانیوں کا سب سے بڑا آتشکدہ بھی رومی فتوحات کی لپیٹ میں آگیا اور اسی سال بدر کے معرکے میں مسلمانوں کو اللہ نے غلبہ عطافرمایا اور مسلمانوں کی خوشیاں دو چند ہو گئیں کہ رومیوں کی فتح کی اچھی خبر سننے کو مل گئی اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بھی کافروں کے مقابلے میں فتحیاب فرمادیا ۔اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نصیحت کی کہ قرابت داروں‘مساکین اورمسافروں کا حق ان کو دینا چاہیے۔ یہ بہتر ہے ان لوگوں کیلئے جو اپنے اللہ کی زیارت کرنا چاہتے ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔
سورہ روم کے بعد سورہ لقمان ہے ۔سورہ لقمان میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے کہ کامیابی حاصل کرنے والے لوگ‘ نمازیں قائم کرنے والے ‘زکوٰ ۃ ادا کرنے والے اور آخرت پر پختہ یقین رکھنے والے ہوتے ہیں ۔سورہ لقمان میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے کہ بعض لوگ لغو باتوں کی تجارت کرتے ہیں اور ان کا مقصد صرف لوگوں کو گمراہ کرنا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کیلئے اللہ تعالیٰ نے ذلت والے عذاب کو تیار کر دیا ہے ۔سورۃ لقمان میں اللہ تعالیٰ نے جناب لقمان کا ذکر کیا ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے دانائی سے نوازا تھا۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کوکچھ قیمتی نصیحتیں کی تھیں ‘ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
جناب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا کہ بیٹے شرک نہ کرنا ‘شرک بہت بڑا ظلم ہے اور اپنے بیٹے کو والدین کی خدمت کی بھی تلقین کی‘ نیز اللہ کے علم کی وسعتوں سے آگا ہ کرتے ہوئے فرمایاکہ اے میرے بیٹے! اگر رائی کے دانے کے برابر کوئی چیز کسی چٹان کے اندر یا آسمان و زمین میں ہوتو اللہ تعالیٰ اس کوبھی سامنے لائے گا۔ بے شک اللہ بڑا باریک بین باخبر ہے۔ آپ نے اپنے بیٹے کو یہ بھی حکم دیا کہ اے میرے بیٹے !نماز قائم کر ‘بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روک اور تجھے جو تکلیف پہنچے اس پر صبر کر۔ بے شک یہ بڑی ہمت والے اور ضروری کام ہیں ۔آپ نے اپنے بیٹے کو مزید یہ نصیحت کی کہ لوگوں سے اپنا چہرہ پھیر کر بات نہ کر (یعنی بے رُخی) اور زمین پر اکڑ کر نہ چل۔ بے شک اللہ تعالیٰ اکڑ کر چلنے والے متکبرین کو پسند نہیں کرتا‘ اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز پست رکھ۔
اس سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے غیب کی ان پانچ باتوں کا ذکر کیا ہے‘ جن کو صرف وہ جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں بے شک اس کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہ جانتا ہے‘ بارش کب ہو گی اور وہ جانتا ہے جو ماں کے رحم میں ہے اور کسی نفس کو نہیں پتا کہ وہ کل کیا کر سکے اور کوئی نہیں جانتا وہ کس زمین میں مرے گا۔ ان تمام باتوں کا علم صرف باخبر اور علم رکھنے والے اللہ کے پاس ہے ۔اس کے بعد سورہ سجدہ ہے‘ جس میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ اس نے ملک الموت کی ڈیوٹی انسانوں کی ارواح قبض کرنے پر لگائی ہے ۔اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے جنت کی نعمتوں کا ذکر کر تے ہوئے بتلایا کہ کسی انسان کو علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کیلئے کیا اہتمام فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں بتلایا ہے کہ مومن اور گناہ گار برابر نہیں ہو سکتے ۔مومن کا مقدر جنت‘ جبکہ سرکشی اور نافرمانی اختیار کرنے والے کا مقدر جہنم کے انگارے ہیں ۔
سورت سجدہ کے بعد سورہ احزاب ہے۔سورۃ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے جنگ ِ خندق کا ذکر کیا ہے کہ جس میں کافروں کی افرادی قوت دیکھ کر منافقین کے دلوں پر ہیبت طاری ہوگئی تھی‘ جبکہ اہل ایمان پوری استقامت سے میدان میں ڈٹے رہے ۔چوبیس ہزار کے لشکر جرار نے مدینے پر حملہ کیا۔ رسول کریمﷺ کے ساتھ صحابہ کرام کے علاوہ سترہ سو یہودی حلیف تھے۔سترہ سو حلیف اتنی بڑی فوج کو دیکھ کر بھاگ گئے ۔اب رسول کریمﷺ کے ہمراہ صرف جانباز مسلمانوں کی ایک مختصر جماعت تھی ۔مسلمانوں نے جب اللہ کی ذات پر بھروسہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے تیز آندھیوں اور فرشتوں کی جماعتوں کے ذریعے اہل ایمان کی مدد فرمائی اور کافر کثرت ِتعداد اور وسائل کی فراوانی کے باوجود ذلت اور شکست سے دوچار ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جس کو اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور یوم حساب کی آمد کا یقین ہے‘ اس کیلئے رسول کریمﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ رسول کریمﷺہرشعبہ زندگی میں ہمارے لیے نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں اور گھریلو زندگی‘ سماجی زندگی‘ انفرادی زندگی‘ اجتماعی زندگی میں ان کی ذات ہی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن ِ مجیدمیں بیان کردہ مضامین سے عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین )