نماز تراویح میں تلاوت ہونے والے پارے کا تفسیری خلاصہ
مفتی منیب الرحمٰن
اُنتیسویں پارے کے مضامین
سورۃ الملک
حدیث پاک میں سورۃ الملک کے بڑے فضائل بیان کیے گئے ہیں‘ اسے ''المنجیہ‘‘(نجات دینے والی)اور ''الواقیاہ‘‘ (حفاظت کرنے والی )کہا گیا‘اس سورت کی تلاوت عذابِ قبر میں تخفیف اور نجات کا باعث ہے‘ اس کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے موت وحیات کی حکمت بیان فرمائی کہ اس کا مقصد بندوں کی آزمائش ہے کہ کون عمل کے میزان پر سب سے بہتر ثابت ہوتاہے ۔ اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اوپر تلے سات آسمانوں کی تخلیق کو اپنی قدرت کی نشانی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کی تخلیق میں تمہیں کوئی عیب یا نقص نظر نہیں آئے گا‘ ایک بار پھر نظر پلٹ کر دیکھ لو ‘ کیا اس میں تمہیں کوئی شگاف نظر آتاہے‘ پھر باربار نظر اٹھا کر دیکھ لو (اللہ کی تخلیق میں کوئی عیب یا جھول تلاش کرنے میں) تمہاری نظر تھک ہار کر ناکام پلٹ آئے گی۔ آسمانِ اول کے نیچے لاتعداد چمکتے تاروں کو اللہ نے قمقموں سے تعبیر فرمایا۔ آیت 19میں اللہ نے فرمایا: کیا انہوں نے اپنے اوپر (کبھی) پر پھیلائے اور (کبھی) پر سمیٹے ہوئے پرندوں کو نہیں دیکھا ‘ اِن کو (فضامیں) رحمن کے سوا کوئی نہیں روک سکتا۔
سورۃ القلم
اس سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے قلم اور کارکنانِ قضا وقدر کے نوشتوں کی قسم فرما کر کفار کے الزامات سے اپنے رسولِ مکرمﷺ کا دفاع فرمایا کہ اپنے رب کے فضل سے آپ مجنون نہیں ہیں اور آپ کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے اور آپ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں‘ عنقریب آپ دیکھ لیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ تم میں سے کون مجنون تھا۔ عام اصول یہ ہے کہ جس پر الزام ہو‘ وہ اپنی صفائی پیش کرتاہے ‘ لیکن رسول کریمؐ کو اللہ تعالیٰ نے یہ اعزاز عطا فرمایا کہ آپ پر کفار ومشرکین کی جانب سے جو الزام لگائے جاتے رہے ‘ اللہ تعالیٰ نے آیاتِ قرآنی میں ان کا رد فرمایا۔آیت 4میں اخلاقِ مصطفی کی عظمتوں کا بیان ہے اور یہ عظمت مخلوق کے پیمانے سے نہیں ‘ خالق عزوجل کے پیمانے سے ہے۔ آیت8سے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو فرمایا کہ کفار چاہتے ہیں کہ دین کے معاملے میں آپ ان سے بے جا رعایت برتیں تاکہ وہ بھی جواب میں رعایت کریں ‘ ایسا نہیں ہوسکتا ‘ حق پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا اور اس کے بعد ایک دشمنِ رسول (مفسرین کے مطابق ولید بن مغیرہ) کے نو قبیح اوصاف بیان کئے گئے ہیں‘ اس سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے نبیِ کریمﷺ کی دل آزاری کرنے والا کتنا ناپسند ہے۔ اس سورت کی آخری آیت کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ اس آیت کو پڑھ کر دم کیا جائے تو نظرِ بد کا ازالہ ہوجاتاہے۔
سورۃ الحاقہ
اس سورت کے شروع میں قیامت کے حق اور یقینی ہونے کو بیان کیا گیا ہے ‘ پھر قومِ ثمود وعاد اور فرعون پر نازل ہونے والے عذاب کا ذکر ہے۔ آیت19سے بتایا کہ قیامت میں جس کا نامۂ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا ‘ یہ اس کے سرخ رو ہونے کی علامت ہوگی اور وہ افتخار کے ساتھ لوگوں سے کہے گا آؤ میرا نامۂ اعمال پڑھو ۔ اس کے برعکس جس کا نامۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا‘ یہ اس کی رسوائی کی علامت ہوگی اور وہ کہے گا کہ کاش مجھے میرا نامۂ اعمال دیا ہی نہ جاتا اور موت کے ساتھ ہی میرا قصہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکا ہوتا۔ انہی آیات میںصالحین کے لیے جنت کی نعمتیں اور منکرین کے لیے اخروی عذاب کا بیان ہے۔
سورۃ المعارج
اس سورت کے شروع میں عذابِ قیامت کے بارے میں ایک بار پھر بیان ہے کہ حشر کا ایک دن پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا ‘ آسمان پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوجائیگا ‘ پہاڑ دُھنکی ہوئی رنگین اون کی طرح ہوجائیں گے اور کوئی کسی کا پرسانِ حال نہ ہوگا ‘ اس وقت مجرم یہ تمنا کریگا کہ بیوی ‘ بھائی اور رشتے دار سب کو اپنا فدیہ دیکر جان چھڑا لے ۔ اس سورت میں اہلِ حق ‘ انکی اعلیٰ صفات اور اُخروی جزا کا بیان ہے ۔اس امر کا بھی بیان ہے کہ قرآن نہ کسی شاعر کا بیان ہے اور نہ کسی کاہن کا کلام ‘ یہ صرف اور صرف اللہ کا کلام ہے۔
سورہ نوح
حضرت نوح علیہ السلام اللہ کی بارگاہ میں فریاد کرتے ہیں کہ میں نے اپنی قوم کو شب وروز دعوتِ حق دی ‘ مگر ان کی سرکشی میں اضافہ ہی ہوتارہا‘ اور جب بھی میں انہیں دعوتِ حق دیتا تو وہ قبولِ حق سے انکار کے لیے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے اور ضد اور تکبر میں اپنے آپ کو کپڑوں سے ڈھانپ لیتے۔ جب نوح علیہ السلام جماعتِ انبیاء میں طویل ترین عرصۂ تبلیغ گزارنے کے بعدقوم کے ایمان سے مایوس ہوئے تو انہوں نے ان کیلیے دعائے عذاب کی کہ اے اللہ ان کا نام ونشان مٹا دے اور اسی موقع پر اپنے لیے ‘ اپنے والدین کے لیے اور جملہ مومنین اور مومنات کے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔
سورۃ الجن
اس سورت میں اس امر کا بیان ہوا کہ جنات عالَم بالا میں خبروں کی سن گن لینے کے لیے جایا کرتے تھے ‘ مگر اب وہ وقت آگیا تھا کہ عالَم بالا میں ان کا داخلہ بند ہوگیااور جو بھی جاتا محافظ ان کا راستہ روک لیتے اور آگ کے گولے ان پر برسائے جاتے۔ جنات نے مشورہ کیا کہ پورے روئے زمین کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ آخر یہ سارا منظر کیوں تبدیل ہوگیا ‘ ضرور کوئی بڑی تبدیلی آئی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان کی ایک جماعت تہامہ (مکہ) کی طرف گئی اور وہاں نبی ﷺ عکاظ کے بازار میں اپنے اصحاب کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے۔ جب انہوں نے قرآن کو سنا تو کہا یہی وہ چیز ہے جو ہمارے اور آسمان کے درمیان حائل ہوگئی ہے اور پھر انہوں نے جا کر اپنی قوم کو بتایا کہ ہم نے عجب قرآن سنا ہے جو راہِ ہدایت کی طرف رہنمائی کرتاہے ‘ ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم ہر گز اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے‘ بے شک ہمارے رب کی شان بلند ہے اور اس کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ بیٹا۔ انہوں نے کہا کہ ہم میں سے کچھ اطاعت گزار ہیں اور کچھ سرکش ہیں اور جنات کا سرکش گروہ جہنم کا ایندھن بنے گا۔ آیت26میں فرمایا '' وہ ہر غیب کا جاننے والا ہے ‘ سووہ اپنے ہر غیب پر کسی کو مطلع نہیں فرماتا ‘ ماسوا ان کے جن کو اس نے پسند فرما لیا ہے ‘ جو (سب) اس کے رسول ہیں ‘‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کو غیب کا علم عطا فرماتاہے۔
سورۃ المزمل
اس سورت میں محبت کے انداز میں اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو ان کی ایک خاص ادا کے ساتھ مخاطَب فرمایا کہ ''اے چادر اوڑھنے والے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کے ''قیام اللیل‘‘ کا بیان فرمایا ‘ قرآن کے اندازِ بیان سے معلوم ہوتاہے کہ آپ ساری ساری رات قیام فرماتے تھے ‘ تو اللہ نے فرمایا : آپ رات کو نماز میں قیام کریں ‘ مگر تھوڑا ‘ آدھی رات یا اس سے کچھ کم کرلیں یا اس پر کچھ اضافہ کردیں اور قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں ۔ یہ بھی فرمایاکہ: رات کو اٹھنا نفس پر سخت بھاری ہے اور کلام کو درست رکھنے والا ہے ۔ نیز فرمایا آپ اپنے رب کے نام ذکر کرتے رہیں اور سب سے منقطع ہوکر اسی کے ہورہیں ۔ دوسرے رکوع میں پھر فرمایا کہ آپ کا رب جانتاہے کہ آپ (کبھی) دو تہائی رات کے قریب قیام کرتے ہیں اور کبھی آدھی رات تک اور کبھی تہائی رات تک اور آپ کے ساتھ صحابہ کی ایک جماعت بھی مصروفِ عبادت ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے تکرار کے ساتھ فرمایا کہ جتنا آسانی سے قرآن پڑھ سکتے ہیں ‘ پڑھ لیا کریں۔
سورۃ المدثر
اس سورت میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو شانِ محبوبی کے ساتھ خطاب کرتے ہوئے فرمایا:''اے چادر لپیٹنے والے ‘ اٹھئے اور لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیے اور اپنے رب کی کبریائی کا اعلان کیجئے‘‘۔ آیت42میں فرمایا :جہنمیوں سے پوچھا جائے گا کہ تمہارے جہنم میں جانے کا سبب کیا بنا ‘ تو وہ کہیں گے ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے‘ ہم مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے اور ہم لغو کاموں میں مشغول رہتے تھے اور ہم قیامت کے دن کو جھٹلاتے تھے کہ موت سر پہ آگئی۔
سورۃ القیامۃ
ان لوگوں کے بارے میں جو آخرت کے منکر ہیں ‘ اللہ تعالیٰ نے نفس لوامہ (اپنے اوپر ملامت کرنے والا نفس) کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا : کیا انسان نے یہ گمان کررکھا ہے کہ ہم مرنے کے بعد اس کی ہڈیوں کو جمع نہیں کریں گے ‘ کیوں نہیں ‘ ہم اس بات پر بھی قادر ہیں کہ ان کی انگلیوں کے پور جیسے پہلے تھے ‘ ویسے ہی بنادیں۔ آیت16سے فرمایا: (اے رسول!) وحیِ ربانی کو جلد یاد کرنے کے شوق میں آپ اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کیجئے ‘ اس قرآن کو جمع کرنا اور آپ کی زبان پر جاری کرنا ہمارے ذمۂ کرم پر ہے ‘ سو جب ہم (یعنی ہمارا بھیجا ہوا فرشتہ) پڑھ لیں تو آپ اس پڑھے ہوئے کی اتباع کریں‘ پھر اس کا (معنی ) بیان کرنا ہمارے ذمہ ہے۔سورت کے آخر میں آخرت کے احوال اور موت کے منظر کو بیان کیا گیا۔
سورۃ الدھر
اس سورت کے شروع میں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو ہدایت دے کر ان کی آزمائش کی ہے ‘ اس سورت میں انفاق فی سبیل اللہ‘ مسکین ‘ یتیم اور اسیر (قیدی) کو کھانا کھلانے کی نیکی کو اپنے بندوں کے وصفِ کمال کے طور پر بیان کیا ہے۔ اس سورت کی بیشتر آیات میں جنت کی نعمتوں کا ذکر ہے ۔
سورۃ المرسلات
اس سورت کے شروع میں آثارِ قیامت کا ذکر ہے اور بار بار تکرار کے ساتھ فرمایا کہ اس دن قیامت کو جھٹلانے والوں کے لیے ہلاکت ہے اور آخر میں میں ایک بار پھر اہلِ تقویٰ کے لیے اجرِ آخرت اور اُخروی نعمتوں کی بشارت ہے۔