شکر اور شکر کی فضیلت
شکر ایک عزیز مقام ہے ۔اس کا درجہ انتہائی بلند ہے ۔یہ بندے کی ان صفات میں سے ایک ہے جو باعث نجات بھی ہیں اوراخروی اجر کا موجب بھی ۔نعمت کی قدر شناسی کو شکر کہتے ہیں ۔یہ قدر شناسی تین طریقوں سے ہوسکتی ہے ،دل سے ،زبان سے اور اعضاء،جوارح سے یعنی دل میں اسکی قدر شناسی کا جذبہ ہو،زبان سے اسکی افادیت کا اقرار ہواورہاتھ پاﺅں سے نعمتوں کے جواب میں ایسے افعال صادر ہوں جو عطاءکرنیوالے کے مرتبے کا اظہار کریں۔ امام غزالی فرماتے ہیں ”خدا کی نعمتوں کی پہچان اور ان پر خوشی پاکر زبان وقلب اوراعضاءوجوارح کو اس کی رضا میں لگادینے کا نام شکر ہے۔گویاکہ شکر کی ادائیگی کے تین طریقے ہیں۔اول، زبان سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف کرنا اور اس کی حمد وثنا بیان کرنا ۔دوم، اپنے اعضاءکو اس کے پسندیدہ امور میں مشغول کردینا ،سوم ،دل کی گہرائیوں میں اس کی عظمت ونعمت کو جاگزیں کرکے اسکے حضورمیں خلوصِ نیت سے جھک جانا اوراسکی مخلوق کی بھلائی کے لیے عملی اقدامات کرنا۔شکر کی بلندی مراتب کی بڑی دلیل یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے اسے اپنے ذکر کے قریب تررکھاہے۔یعنی جہاں اپنے ذکر کی فضیلت واضح کی ہے وہیں پر ”شکر“کا تذکرہ بھی فرمایا ہے ۔ارشادربانی ہے :۔ پس مجھے یاد(ذکر )کرو ،میں تمہیں یادکرو ں گا اورمیرا شکر کرو اورمیری ناشکری نہ کرو۔ (البقرة۱۵۲)
اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر کرو اورایمان لاﺅ۔(النساء۱۴۷)
اورعنقریب ہم شکر کرنے والوں کو جزاءدیں گے۔(آل عمران ۱۴۵) اللہ تبارک وتعالیٰ نے نعمت کے اضافے کو شکر کے ساتھ قطعی طور پر بیان کیا ہے اور اس میں کسی استثناءکا ذکر نہیں کیا۔ ”اگر تم نے شکر کیا توہم تمہیں (اور)زیادہ دیں گے“۔(ابراھیم ۷)
شکر اللہ تبارک وتعالیٰ کے اخلاق میں سے ایک خلق ہے۔ اوراللہ شکر کا بدلہ دینے والا (قدر دانی فرمانے والا)بردبارہے۔(تغابن ۱۷) اللہ تبارک وتعالیٰ نے شکر کو اہل جنت کا ابتدائی کلام قرار دیا ارشاد ہوتا ہے: ”اور وہ (اہل جنت )کہیں گے ،اللہ تعالیٰ کا شکرہے جس نے ہم سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا “۔(الزمر۸۴)مزید ارشادفرمایا:”اوران کا آخری قول یہ ہوگا اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جوتمام جہانوں کو مرتبہ کمال تک پہنچانے والا ہے“۔ (یونس۱۰)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ نے جس بندے کو اپنی نعمت عطاءفرمائی اوراس نے الحمداللہ کہاتویہ حمد اس نعمت سے افضل ہوگی۔ (ابن ماجہ ،طبرانی)یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمد وتوصیف کی توفیق نصیب ہوجائے تو اس حمد کے سامنے دنیا ومافیھا کی باقی نعمتیں ہیچ ہیں۔کیونکہ یہ سب فانی ہیں اور اللہ رب العزت کا نام اور اس کا ذکرباقی ہے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :اگر تما م دنیا بھی میری امت کے کسی فرد کے پاس ہو،پھر وہ الحمد اللہ کہتے ہیں تو یہ (تعریف)الحمد اللہ اس تمام دنیا سے افضل ہوگی۔(ابن عساکر) حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔حضور آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی بندے پر نعمت کی اوراس نے الحمد للہ کہاتو اس نے نعمت کا شکر اداکردیا ،اور اگر دوسری بار الحمد للہ کہا تواللہ تعالیٰ اسے نیا ثواب عطاءفرمائے گااور تیسری بار الحمدللہ کہا تو اللہ تبارک وتعالیٰ اسکے گناہ معاف فرمادیگا۔ (حاکم،بیہقی ) حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہماروایت فرماتے ہیں،حضور شافع محشر صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا ،سب سے پہلے جنت کی طرف حمد کرنیوالے ان افراد کو بلایا جائیگا جو سختی اورخوشحالی میں اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں۔ (طبرانی ،حاکم) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، حضور معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں، اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو اپنے کرم سے نواز نے کا ارادہ فرماتا ہے تو ان کی عمریں دراز کردیتا ہے اورانھیں شکر گزاری کی تلقین الہام کردیتا ہے۔(کنزالعمال) حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ،حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں جس بندے کو اللہ کریم نے اہل وعیال اورمال ودولت کی نعمت عطاءفرمائی اور وہ ماشاءاللہ لاقوة الاباللہ کہے تو وہ اس میں(شکر نعمت کی وجہ سے )سوائے موت کے اورکوئی آفت نہیں دیکھے گا۔(بیہقی ) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ،حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا ”انسانوں میں اللہ تعالیٰ کا سب سے شکر گزار بندہ وہ ہے جو لوگوں کا زیادہ شکر اداکرنیوالاہو۔(احمد ، طبرانی) حضرت عمر ان بن حصین رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سب سے افضل بندے وہ ہوں گے تواللہ تعالیٰ کی کثرت سے حمد کرنیوالے ہیں۔(طبرانی) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، حضور معلم کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”جب تم سے کوئی اپنے سے(ظاہر کے اعتبار سے ) افضل شخص کو دیکھے جسکے پاس مال اوراولاد ہے تواسے چاہیے وہ (فورا) اپنے سے کم درجہ شخص کو دیکھ لے۔ (بخاری، مسلم)