تم کیا جانو عشق میں گزرے لمØ+Û’ کیا بیکار گئے
پیار تو جیون کی بازی تھی، تم جیتے ہم ہار گئے

ہجر Ú©Û’ جاگتے لمØ+Ùˆ تم Ú©Ùˆ یاد ہو تو اتنا بتلاؤ
کتنے چاند نکل کر ڈوبے اور کتنے تہوار گئے

جلتی ہوئی سڑکوں پر رقصاں دھول بھرا سنّاٹا تھا
ہم جو سلگتی تنہائی کے خوف سے کل بازار گئے

جن کو آنگن آنگن سینچا موسم موسم لہو دیا
دھوپ چڑھی تو ان پیڑوں کے سائے پسِ دیوار گئے

وہ جگنو، وہ جگ مگ چہرے گلیوں کا سرمایہ تھے
اندھی صبØ+ Ú©ÛŒ سرØ+د پر جو رات Ú©ÛŒ پونجی وار گئے

جس سے بغاوت کی پاداش میں میرا قبیلہ قتل ہوا
گاؤں کے اس خونی میلے میں میرے سارے یار گئے

ہم کیا جانیں یار سلیمؔ کہ نفرت کیسی ہوتی ہے
ہم بستی کے رہنے والے شہر میں پہلی بار گئے
Ù+Ù+Ù+