زمستاں مرے جسم میں موجزن ہے

کوئی بات کہہ کے،
میں جب اپنی سانسوں کو کہرے میں لپٹی ہوئی
شاہراہوں پہ چلتے ہوئے دیکھتا ہوں
تو بے روئے سانسوں کا جالا سا چاروں طرف پھیلتا ہے
اور آگے کی چیزوں ہیولوں کی مانند بنتی بگڑتی ہیں
تب لوگ کہتے ہیں
۔یہ رُت زمستاں کے کھلنے کی ہے۔
اور میں سوچتا ہوں
۔زمستاں کہاں ہے
دھُواں بنتی سانسوں میں!
آنسو کے جالے میں!
یا ان ہیولوں کے بننے بگڑنے میں یا۔۔۔۔۔۔۔

اگر یہ حقیقت میں فصلِ زمستان ہے تو کس سے پوچھوں
کہ جو اتنے موسم گئے اور آئے
سبھی کی شباہت زمستاں سی کیوں تھی؟
۔۲۔
کئی سال گزرے
انہی شاہراہوں پہ چلتے ہوئے ہم کوئی بات کہہ کے
دھُواں بنتی سانسوں میں اپنے ہی الفاظ کو دیکھتے تھے
نجانے میں اس وقت کیا کہہ رہا تھا!
کہ تُم تھے جو کچھ کہتے کہتے اچانک رُکے تھے!
کہ پھر یہ زمستاں تھا جس نے کوئی ان کہی بات کاٹی تھی !
کچھ ٹھیک سے یاد آتا نہیں۔۔۔
صرف اتنا پتا ہے
کہ اس دن سے آنکھوں میں آنسو کے جالے ہیں
آگے کی چیزیں ہیولوں کی مانند بنتی بگڑتی ہیں۔۔۔
بنتی بگڑتی ہیں۔۔۔بنتی بگڑتی چلی جا رہی ہیں
۔۳۔
زمستاں جدائی کے موسم کا اک آئینہ ہے
اور اس آئینے میں
تمہیں جس گھڑی میں مسافت کی پھیلی ہوئی دھُند میں دیکھتا ہوں
مجھے ایسا لگتا ہے
جیسے ہر اک شے اسی ایک لمحے سے پیدا ہوئی ہے
ہر اک رُت اسی خواب کا عکس ہے ، سارے موسم مرے
جسم میں موجزن ہیں
لہو کے سمندر کی امواج ہیں
زمیں ، آسماں، پھول، تارے ، ہوائیں، سمندر، جزیرے پہاڑ اور ندیاں
تمہارے ہی چہرے کے بھُولے ہوئے نقش ہیں اور موسم،
ازل سے ابد تک کا ہر ایک موسم
جُدائی کے موسم کی تجرید ہے۔۔۔
۔۴۔
زمستاں مرے ہست کا استعارہ ہے، وہ آئینہ ہے
جو کھوئے ہوئے عکس کا ترجماں ہے
جُدائی کے لمحے سے کچھ دیر پہلے جو تُم مسکرائے تھے
اس کا گماں ہے
کوئی بات کہہ کے
میں جب اپنی سانسوں کو کہرے میں لپٹی ہوئی شاہراہوں
پہ چلتے ہوئے دیکھتا ہوں تو بے روئے آنسو کا جالا سا چاروں
طرف پھیلتا ہے اور آگے کی چیزیں ہولوں مانند بنتی بگڑتی ہیں
میں سوچتا ہوں
زمستاں کہاں ہے
۔۔۔۔۔۔