ہتھیاروں کے بجائے پیسہ عوام کی فلاح پر خرچ کرنا چاہتے ہیں: وزیراعظم
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ بھارت سے تناؤ میں کمی چاہتے ہیں تاکہ ہمیں ہتھیار نہ خریدنے پڑیں، ہم اپنا پیسہ انسانی فلاح پر لگانا چاہتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کا روسی نیوز ایجنسی کو انٹرویو میں کہنا تھا کہ حالات بدل گئے ہیں، اب پاکستان کے بیک وقت روس اور امریکا کیساتھ تعلقات ہیں۔ ہم بھارت سے تناؤ میں کمی کے خواہشمند ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کے دوران انڈین قیادت سے بات ہو سکتی ہے۔
روس سے ہتھیار خریدنے سے متعلق سوال پر وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے تاکہ ہتھیاروں پر پیسے خرچ نہ ہوں۔ ہماری حکومت انسانی ترقی پر پیسے خرچ کرنا چاہتی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان دفاع کے علاوہ بھی روس کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے کا خواہاں ہے۔ روس توانائی میں خود کفیل ہے، اس شعبے میں روس پاکستان سے تعاون کر سکتا ہے۔ ضرورت پڑی تو روس سے ہتھیاروں کی خریداری بھی ہو سکتی ہے۔ پاکستان آرمی اس سلسلے میں روسی فوج سے رابطے میں ہے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ روس کے ساتھ تعلقات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ روس ویزا ان آرائیول کی سہولت والے ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان کا تجارتی وفد روس جا رہا ہے، جلد ہی روسی وفد بھی پاکستان کا دورہ کرے گا۔ روسی سٹیل کمپنی پاکستان کی سٹیل ملز میں سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کا روسی میڈیا کو انٹرویو میں کہنا تھا کہ ستر کی دہائی تک پاکستان اور سویت یونین ایک دوسرے سے فاصلے پر رہے، اب حالات بدل گئے ہیں۔ روس کے ساتھ پاکستان کے دفاعی تعلقات میں اضافہ ہوا ہے۔ چین کے دورے میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے مختصر ملاقات ہوئی تھی، اس کانفرنس کے دوران بھی ان سے ملاقات ہو سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کانفرنس کے دوران بھارتی قیادت سے بھی بات ہو سکتی ہے۔ بھارت سے بامعنی مذاکرات کے لیے روس سمیت کسی کی بھی ثالثی قبول ہے۔
عمران خان نے کہا کہ ہمارے خطے میں پوری دنیا میں سب سے زیادہ غربت ہے۔ پاکستان اور بھارت کو جنگ کے بجائے انسانی ترقی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر دونوں ملک چاہیں تو کشمیر کا مسئلہ بھی خوش اسلوبی سے حل ہو سکتا ہے۔ نریندر مودی بھاری اکثریت کے ساتھ حکومت میں آئے ہیں، وہ چاہیں تو تعلقات میں بہتری آ سکتی ہے۔ دو ایٹمی قوتیں اپنے مسائل صرف بات چیت کے ذریعے ہی حل کر سکتی ہیں۔
مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ تب حل ہوگا جب وہاں کے لوگوں کو حق خود ارادیت دیا جائے گا۔ اقوام متحدہ نے 1945ء میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا تھا۔ بھارت جتنی زیادہ طاقت کا استعمال کرے گا، کشمیریوں کی تحریک آزادی میں بھی اتنی شدت آئے گی۔ پاک بھارت تعلقات معمول پر لانے کے لیے کشمیر مسئلے کا حل ضروری ہے۔
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایران پر پابندیوں کے باعث اس میں پیشرفت نہیں ہو سکتی۔
افغان مفاہمتی عمل کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں امن کے لیے پاکستان ہر ممکن کوشش کر رہا ہے اور کرے گا۔ وہاں امن پاکستان اور افغانستان دونوں کے مفاد میں ہے۔ طالبان امریکا سے مذاکرات کر رہے ہیں، امید ہے وہ افغان حکومت سے بھی مذاکرات کریں گے۔ افغانستان میں امن کے لیے روس سمیت تمام ہمسایوں کو کوشش کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان، ازبکستان اور روس ریلوے لائن خطے کی ترقی کے لیے اہم ہے۔ اس ریلوے لائن کی تعمیر افغانستان میں امن اور فنڈ کی دستیابی سے مشروط ہے۔ افغان حکومت اور طالبان بھی جانتے ہیں کہ یہ ریلوے منصوبہ افغانستان کے لیے کتنا اہم ہے۔