مری زباں پر ہے فضلِ رب سے ثنائے پاکِ حضورِ انورؐ
تمام دنیا کی رہبری کا سجا کے آئے جو تاج سر پر
نہ لکھ سکا کوئی تا بہ ایں دم، نہ لکھ سکے گا کوئی سخن ور
محاسن اس کے بیاں ہوں کیونکر، ہیں جبکہ حدِّ بیاں سے باہر
سریر و تاجِ نبوّت اس کا خوشا کہ ہے تا قیامِ محشر
اذاں اسی کی ہے چار سو اب، اسی کی مسجد، اسی کا منبر
وہ مستِ خوشبوئے زلف شبگوں، کہ ہیچ بوئے گلاب و عنبر
وہ روئے تاباں جمال پرور، کہ پانی پانی مہِ منوّر
ضمیر روشن ہے خُلق اطہر، نگاہ پاکیزہ، دل مطہّر
دھنی ہے قسمت کی خیرِ اُمّت، ملا جو ایسا اسے پیمبر
ہے فقر جس کا لباسِ شاہی، ہے جس کے تن پر بس ایک چادر
ہیں اس کے قدموں میں تاجِ زرّیں، ہے گنجِ قاروں پہ اس کی ٹھوکر
گزر بسر ہے کھجور و جو پر، لباس سادہ، مجسم اطہر
ہے اک چٹائی پہ خوابِ راحت، بغیر تکیہ، بغیر بستر
وہ جس کے گھر میں نہ تھا اثاثہ، وہ جس کو رہتا تھا فاقہ اکثر
رواں زمانہ میں اس کا سکّہ، اسی کا جاری ہے آج لنگر
دلاوروں میں بڑا دلاور، سپہ گروں میں بڑا سپہ گر
قدم جمائے جہاد میں جب، تو پیٹھ پھیرے عدو کا لشکر
اسی نے دی ہے خبر یہ ہم کو، حقیقت اس نے یہ کی اجاگر
متاعِ دنیا قلیل و کمتر، متاعِ عقبیٰ کثیر و بہتر
یہ بارگاہِ جلیل و سطوت، جلیں جہاں جبرئیلؑ کے پر
ہے مصطفیٰؐ کی وہاں رسائی، ہے لا مکاں میں وہ جلوہ گستر
سب اس کے ساتھی وفا کے پیکر، نشانِ سجدہ ہر اک جبیں پر
گروہِ عشّاق میں سبھی ہیں، کوئی جواں ہے کوئی معمر
وہی ہے آقائے دو جہاں اب، وہی ہے ہادی، وہی ہے رہبر
وہی جو بے بس تھا بے اماں تھا، وہ جس نے طائف میں کھائے پتھر
ہے علم و عرفاں کا ایک معدن، ہے حکمتوں کا وہ اک سمندر
زمانہ بالغ نظر ہوا ہے تری کتابِ ہدیٰ کو پڑھ کر
ہے دل پریشاں بہ فکرِ امّت، اُچاٹ نیندیں کہاں کی راحت
برائے بخشش حضورِ رب میں دعائیں لمبی بہ قلبِ مضطر
یہ اس کی معجز نمائیاں اُف، یہ اس کی خاطر گواہیاں اُف
قمر ہوا شق بہ چرخِ چنبر، تو اس کی مٹھی میں بولے کنکر
ہزار احساں ہیں جس خدا کے، اسی سے عرضِ نظرؔ ہے ہمدم
کہ اب دکھائے دیارِ طیبہ کہ اب سنوارے مِرا مقدّر
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی