عرفی
محل ایسا کیا تعمیر عرفی کے تخیل نے
تصدق جس پہ حیرت خانۂ سینا و فارابی
فضائے عشق پر تحریر کی اس نے نوا ایسی
میسر جس سے ہیں آنکھوں کو اب تک اشک عنابی
مرے دل نے یہ اک دن اس کی تربت سے شکایت کی
نہیں ہنگامۂ عالم میں اب سامان بیتابی
مزاج اہل عالم میں تغیر آگیا ایسا
کہ رخصت ہو گئی دنیا سے کیفیت وہ سیمابی
فغان نیم شب شاعر کی بار گوش ہوتی ہے
نہ ہو جب چشم محفل آشنائے لطف بے خوابی
کسی کا شعلۂ فریاد ہو ظلمت ربا کیونکر
گراں ہے شب پرستوں پر سحر کی آسماں تابی
صدا تربت سے آئی ''شکوۂ اہل جہاں کم گو
نوا را تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی
حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی''