بزرگوں کا خیال رکھیں!
محمد ریاضدنیا کے کم و بیش تمام ممالک میں آئندہ چند دہائیوں میں بزرگ یا معمر افراد کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ متوقع ہے۔ تعداد میں بڑھوتری کے ساتھ ساتھ بزرگ افراد سے بدسلوکی کا خدشہ بھی بڑھ جائے گا۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ مروجہ اقدار بزرگوں سے بدسلوکی میں مانع ہیں۔ ایک حد تک یہ بات درست ہے لیکن صرف اسی پر قناعت نہیں کی جا سکتی۔ اقوامِ متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق ہر چھ میں سے ایک بزرگ فرد کو بدسلوکی کی کسی نہ کسی شکل کا سامنا ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں بزرگوں کی آبادی بڑھنے کے بعد خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ایسے واقعات جن سے بزرگ افراد کو نفسیاتی اور جسمانی دونوں طرح کا ضرر پہنچنے کا امکان ہو، بڑھ جائیں گے ۔ ایک جائزے کے مطابق 60 برس سے زائد عمر افراد کی تعداد جو 2015ء میں 90 کروڑ تھی 2050ء میں بڑھ کر دو ارب ہو جائے گی۔ اسی کے پیشِ نظر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 15 جون کو بزرگ افراد سے بدسلوکی کے بارے میں آگاہی کا دن (ورلڈ ایلڈر ابیوز اوئرنس ڈے) طے کیا۔ بزرگوں سے بدسلوکی سے مراد کوئی ایک یا لگاتار کیا جانے والا ایسا عمل، یا مناسب عمل سے گریز ہے، جو اعتماد کے رشتے کو نقصان پہنچاتے ہوئے ضرر یا تکلیف پہنچائے۔ اس تعریف میں ضرر یا تکلیف سے بچاؤ کے اقدامات سے گریز بھی شامل ہے۔ بزرگوں کو جسمانی، نفسیاتی، جذباتی اور مالیاتی سمیت دیگر اقسام کی بدسلوکیوں کا سامنا ہو سکتا ہے اور یہ شعوری یا غیر شعوری طور پر نظر انداز کرنے سے جنم لے سکتی ہیں۔ دنیا کے بہت سے حصوں میں بزرگوں کے ساتھ بدسلوکی کے معاملے پر آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں یا خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ تاہم شواہد واضح عندیہ دیتے ہیں کہ یہ ایک بڑا سماجی مسئلہ ہے۔ اس کا اندازہ 2017ء میں ہونے والی ایک وسیع تحقیق سے ہوتا ہے۔ مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے28 ممالک میں ہونے والی 52 تحقیقات سے حاصل ہونے والے شواہد کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالا گیا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران (2016ء میں) 60 برس یا اس سے زائد عمر کے 15.7 فیصد افراد کسی نہ کسی بدسلوکی کا شکار ہوئے۔ یہ ایک محتاط اندازہ ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں سماجی اقدار کی بنیاد پر اگرچہ بزرگوں کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن دورِ جدید میں ہونے والی تیز رفتار تبدیلیوں نے ان کی حیثیت کو گھٹا دیا ہے۔ ایک طرف اجتماعی خاندان بکھر رہے ہیں اور دوسری طرف بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی کا ساتھ نہ دے پانے نے انہیں تنہا کر دیا ہے۔ نئی نسل کی دلچسپیاں پرانی سے میل نہیں کھاتیں اور وہ اپنے ہی خاندان کے بزرگوں کے ساتھ وقت گزارنا پسند نہیں کرتی۔ اس صورتِ حال کا حل تلاش کرنا ہوگا۔