جنگل ’’ اوکی جاہارا‘‘ جہاں لوگ خود کشی کرنا پسند کرتے ہیں
یخ بستہ سرد ہوائیں چل رہی تھیں۔ میں خوبصورت فیوجی پہاڑ کے گرد پہنچ چکا تھا۔ ارد گرد کا ماحول بہت بُرا اور پراسرار تھا۔ جونہی میں ’’اوکی جاہارا‘‘ (Aokigahara) جنگل کے داخلی دروازے تک پہنچا تو میں نے دور سے ایک انسانی چیخ کی آواز سنی۔ شروع میں تو ڈر لگا لیکن میں اپنے خوف پر قابو پا کر آواز کی سمت میں بھاگا کہ اگر کوئی تکلیف میں ہو تو اس کی فوری مدد کروں۔ پانچ سو میٹر چلنے کے بعد میں درختوں کے جھنڈ کے قریب پہنچا تو وہاں ایک دلخراش منظر نظر آیا۔ ایک بڑے درخت کے نیچے سوکھے پتوں کے اوپر ایک ادھیڑ عمر آدمی بے سدھ پڑا ہوا تھا۔ اس کی سانسیں بند اور ٹانگیں مڑی ہوئی تھیں۔ اس کے اردگرد ادویات، شراب کے کین، سگریٹ اور کچھ کاغذات پڑے اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ مرنے والے نے باقاعدہ پلان کرکے یہاں آ کر خودکشی کی ہے۔ فیوجی پہاڑ کے دامن میں یہ جنگل خودکشی کرنے والوں کی پسندیدہ اور آخری آرام گاہ ہے۔ پچھلے پچاس سال میں بھی ہزاروں جاپانیوں نے اس جنگل میں آ کر خودکشی کی ہے۔ میں جنگل میں آگے بڑھا تو کچھ فاصلے پر مردوں اور عورتوں کے جوتے نظر آئے۔ ایک طرف لفافے میں بچوں کی تصاویر بھی تھیں۔ اس جنگل میں جنگلی جانور بھی ہیں۔ پولیس نے بتایا کہ ان کے پہنچنے سے پہلے ہی خودکشی کرنے والوں کی نعشیں جانور کھا چکے ہوتے ہیں۔ ان کی صرف باقیات ہی رہ جاتی ہیں۔ ہر مہینے میں بیس تیس لوگوں کی نعشیں ملتی ہیں۔ بعض مہینوں میں سو سے زیادہ لوگوں کو بے ہوشی کی حالت میں پایا گیا اور بروقت طبی امداد دے کر ان کی جان بچائی گئی۔ موت کے جنگل میں موت کے باسیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جنگل میں اب جگہ جگہ سیکیورٹی کیمرے لگا دئیے گئے ہیں۔ ویلفیئر تنظیموں نے جابجا اپنے بینرز لگائے ہوئے ہیں جن پر لکھا ہوتا ہے: ’زندگی سے پیار کیجیے‘‘ مرنے سے ’’پہلے ایک دفعہ ہم سے مل لیں۔‘‘ ’’زندگی ایک ہی دفعہ ملتی ہے۔‘‘ ’’آپ کے بچے اور آپ کا محبوب آپ کا گھر انتظار کر رہے ہیں‘‘۔ ان بینرز کے نیچے ٹیلی فون نمبرز بھی دیے گئے ہیں۔ ان بینرز کا اثر ضرور ہوا ہے۔ خودکشی کے لیے جانے والے کچھ لوگوں نے ان تنظیموں سے رابطہ کیا۔ اپنا مسئلہ بتایا جس کا فوری حل نکل آیا اور یوں ان بے چاروں کی جان بچ گئی۔ وہاں خود کشی سے بچانے والوں کی کئی تنظیمیں سرگرمِ عمل ہیں جو مایوس افراد کو زندگی کی طرف دوبارہ لانے کی تگ و دو میں لگی رہتی ہیں۔اس علاقے کے انچارج نے بتایا کہ ان کا سٹاف گاہے بگاہے یہاں آتا رہتا ہے تاکہ زندگی ختم کرنے والوں کو بچایا جا سکے۔اس نے بتایاکہ خودکشی کی ایک بنیادی وجہ قرضوں کا بوجھ بھی ہے۔ آسان شرائط پر قرض لے لیا جاتا ہے بروقت ادائیگی نہ ہونے سے اس پر سود در سود اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ قرض کی ادائیگی نہ ہونے سے قرض خواہ اپنے آپ کو مجرم گردانتے ہوئے خودکشی پر مجبور ہو جاتا ہے۔ قرض خواہوں کی مشکل دور کرنے کے لیے کئی بینکوں نے قرض کی ادائیگی کو مزید آسان بنا دیا ہے۔ ادھیڑ عمر جاپانی HIdeo Watanabe کی جنگل کے داخلی گیٹ کے ساتھ کافی شاپ ہے۔ وہ جنگل میں اکیلے جانے والے مرد و خواتین پر نظر رکھتا ہے۔ کافی پینے والوں کو زندگی سے پیار کا درس دیتا ہے۔ اس سے باتیں کرکے خودکشی کرنے والے کئی افراد نے زندگی کی طرف دوبارہ سفر شروع کیا ہے۔ ایک بدھ راہب کا کہنا ہے کہ خودکشی کرنے والے اکثر لوگ پیار اور محبت کے پیاسے ہوتے ہیں۔ محبت کے دو میٹھے بول ان کو زندگی میں واپس لا سکتے ہیں۔ سونامی اور 2011ء کے زلزلے کے بعد خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ جن لوگوں کے عزیز و اقارب زلزلے اور سونامی میں ہلاک یا بے گھر ہوئے ،ان میں سے اکثر شدید ڈپریشن کا شکار ہوگئے اور کچھ نے یہاں آ کر خودکشی کی۔ اس کے علاوہ زندگی میں ناکامی، مالی پریشانی، کام کا وقت پر پورا نہ ہونا، قریبی عزیز و اقارب کی موت، محبت میں ناکامی اور باس کا ناروا رویہ بھی خودکشی کی وجوہات میں شامل ہیں۔ مناسب نوکری نہ ملنے کے باعث بھی خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ خودکشی میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاںاخلاقی طور پر خودکشی کو برا نہیں سمجھا جاتا۔ ……