قدیم گورا قبرستان جہاں شہر کے اولین حاکم خاک کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں
فیصل آباد میں ایک گورا قبرستان 1902 ء سے قائم ہے، جس کے چوبی درواز ے پر اب سناٹاطاری رہتاہے ۔ اِس چوبی دروازے کی چھت بھی چوبی ہے جوپھولوں کی بیل سے ڈھکی ہوئی ہے۔ یہ ماحول کی افسردگی لیے، کہ کچھ اور کِھلے پُھولوں پہ گہری اُداسی چھائی رہتی ہے۔۔۔اک پر اسرار خاموشی ہے۔۔۔ گوروں کا قبرستان، جہاں اِس شہر کے اوـــــــــلین حاکم خاک کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں۔ جن میں سے چند کا خمیرشائدیہیں سے اُٹھاہو گاکہ وہ یہیں خاک نشین ہیں۔نیلی آنکھوںمیں کیا کیا خواب سجے ہوں گے آہ اب یہ خود اِک خواب کی مانند ہیں۔ یہ وہی انگریز حاکم ہیں جو اِس شہر کے اولین حکام رہے اور اِنہی افسران نے اِس شہر کے خال و خال بنائے۔ مگر شہر والوں کو نہ ماضی سے دلچسپی ہے او ر نہ اتنی پرانی باتوں سے ۔۔۔ بہت دِنوں کے بعد یہاں کوئی آتا ہے ۔گورا قبرستان میں دفن ہونے والوں نے اِس شہر کو اپنی صلاحیتیں ہی نہیں اپنا جسم بھی دے دیا۔قبرستان کے اندر اب پھول نہیں کھلتے مگر اِن انگریز افسران کے لگائے ہوئے سنبل کے درخت ٹھنڈی سڑک میں بہار کا منظر پیش کیا کرتے ہیں۔اگر یہ درخت نہ ہوتے تو فیصل آباد میں مارچ کا مہینہ کبھی سرخ پھولوں سے لدا ہو ا نہ ہوتا۔ اب اِس گورا قبرستان میںبوڑھے درختوں کی گھنی چھائوںہے ۔۔۔درختوں کی بڑھی ہوئی شاخیںہیں۔۔۔سوکھے ہوئے پتے۔۔۔ اور سوکھے پتوں کی سرسراہٹ اک سوگوار منظرپیش کرتی ہے۔ اِس گورا قبرستان میں قبریںترتیب کے ساتھ بنی ہوئی ہیں۔۔۔جن پہ سفیدسنگ مر مرکے کتبے ہیں اور اِن کتبوں پہ اِن کے نام اور عہدے لِکھے ہیں۔کتبوں پہ کندہ ہونے سے پہلے اِن ناموں کی کیاتمکنت ہو گی۔ کیا جلال ہو گا، مگر اب نام جو سفید کتبوں پہ بوسیدہ ہو رہے ہیں، نام مٹے مٹے سے ہیں۔نشان بھی بے چارگی کا منظرپیش کر رہے ہیں۔یہیں انگریز پولیس کپتان فرینک برٹل سن کلائوچ Frank Bertelsen Clouchکی قبر ہے ۔اِس27 سالہ پولیس کپتان کو فیصل آبادکے ایک قصبے میں ایک مقدمے کی تفتیش کے دوران قتل کر دیا گیاتھا۔ 1912 ء میں جب انگریز سیاح سڈنی اور اُس کی بیوی فیصل آباد آ رہے تھے تو مقتول انگریز فرینک کی ماں برٹل سن اِن سے ملیں ۔لیڈی نے چھوٹے دستی رومال سے آنکھوں کے کونے صاف کیے اور بھیگی آنکھیں سڈنی اور بیٹرائس ویب پر جما دیں۔غم و اندوہ کی پرچھائیں کے گہرے سایوں نے لندن کی سردی کو جیسے کمرے کی نیم تاریکی میں منجمد کر دیا تھا۔سڈنی ویب کی بیوی نے لیڈی کے لخت جگر کی جواں مرگی کے غم کو دل کے قریب محسوس کیا ۔ چند ثانیے خاموشی میں گزر گئے مگر کہر کی سل بدستور سینوں پہ رہی۔ آخر سڈنی ہی گویا ہوا۔ میڈم! میں آپ کے لیے کیا کر سکتاہوں؟۔۔۔ لیڈی کلوچ نے سیاہ چرمی بٹوے کو دونوں جانب کھولتے ہوئے درمیان کا چمکدار حصہ سڈنی کے سامنے کیا۔تازہ کھلتے دمکتے گلاب کی طرح چہرہ گہری نیلی آنکھوں میں مستقبل کے دروبام کو چھونے کا عزم نمایاںتھا ،یہ ایک نوجوان کی ذرا دھندلی تصویر تھی۔۔اپنی ساری قوت کو مجتمع کرتے ہوئے لیڈی نے کہنا شروع کیا۔۔’’یہ میرے بیٹے کی تصویر ہے۔یہ فیصل آباد میں کبھی نہ آنے کے لیے رکا پڑا ہے۔۔اِس کے مدفن پر اس شہر میں کھلنے والے پھول میری جانب سے سجا دینا‘‘ کتبہ Frank Bertelsen Clouch Superintendent of Polic murdered Burried on 21 November 1908. عقیق ، گیندے اور گل مہر کے زرد اور سرخ پھول تھے جنہیں پکڑے سڈنی قیصری باغ کے گوشہ میں تھا۔ سناٹے میں لپٹے چند نفوس کی قبروں کے درمیان سے ہوتا ہواایک قبر کے پائیں کھڑا تھا۔۔۔اُس کے ہاتھوں میں پھول اس قبر کے مکین کے لیے تھے۔سڈنی کے دل پر سے جیسے لندن کی منجمد کہر کی سل نے اتر کر زمین پر سنگ مرمر کی سل کا روپ دھا ر لیا تھا۔ اس سل پر کنداں یہ سیاہ جلی حروف ایک ایک کر کے اِس دل میں اترتے جار ہے تھے۔ شاید یہی پیغام تھا جو پھولوں کے بدلے میں لندن میں لیڈی کلوچ کا منتظر تھا۔ہر قبرستان کے ساتھ ایک کہانی رہی ہو گی۔ آہ۔۔۔ کہانیوں کا انجام اتنا دُکھی کیوں ہوتا ہے۔داستانیں اتنے افسوسناک موڑ پر آ کر کیوں ختم ہو جاتی ہیں۔ میں سوچتا ہوں ، اور سوچتا ہی رہتا ہوں ۔یہ بقا اور فنا کا قصہ کیا ہے۔ ایک جیتا جاگتا انسان۔۔منوں مٹی نیچے۔۔۔۔مگر اِ ک بات اور بھی دُکھ دیتی ہے، وہ اِس قبرستان کا نام ہے، جوگورے اور کالے کے امتیاز کو ظاہر کرتا ہے۔۔۔۔گورا قبرستان۔۔۔۔مرنے کے بعد تو گورے اور کالے کا فرق کو ختم ہو جانا چاہئے تھا۔ ٭…٭…٭