کمال تو ربِّ ذوالجلال کی عطا میں ہے
اﷲتعالیٰ ارشاد ہے: ''اور(اے آدم!) ہم نے تم کو پیدا کیا ‘ پھر تمہاری صورت بنائی ‘ پھر ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا (اور) وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا ‘ (اللہ تعالیٰ نے ) فرمایا: تجھ کو سجدہ کرنے سے کس چیز نے منع کیا‘ جبکہ میں نے تمہیں حکم دیا تھا؟‘ اُس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں ‘ تو نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے پیدا کیا ہے‘ (اﷲتعالیٰ نے ) فرمایا: تو یہاں سے اتر ‘ تجھے یہاں گھمنڈ کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا‘‘(الاعراف:12-13)۔ یعنی آگ لطیف ہے اور مٹی کثیف ‘ اور لطیف چیز کثیف سے افضل ہے‘ تو میں اپنے جوہرِ تخلیق کے اعتبار سے افضل ہو کر ادنیٰ کے سامنے سجدہ کیسے کروں؟ اسے عقل نہیں مانتی‘ دلیل اس کا ساتھ نہیں دیتی۔ سو‘اُس نے عقلی دلیل سے اللہ تعالیٰ کے حکم کو رَد کردیا اور راندۂ درگاہ ہوااور فرشتوں نے بلاچوں وچرا اللہ تعالیٰ کے حکم کو تسلیم کیا اور آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے۔ فرشتوں کو معلوم تھا کہ کمال نہ آگ میںہے ‘ نہ ذرۂ خاک میں ہے‘ کمال تو ربِّ ذوالجلال کی عطا میں ہے‘ وہ چاہے تو ذرّے کو آفتاب سے بالا کردے ‘ قطرے کو سمندر کردے اور خاک کے پتلے آدم کو رشک ملائک بنادے۔