پرانے کراچی میں دندان سازوں اور نجومیوں کے چکر
Ù…Ø+مد سعید جاوید
جÛانگیر پارک سے باÛر نکلتے تو مرکزی دروازے Ú©Û’ سامنے ایک اور ÛÛŒ جÛاں آباد تھا۔ ÙˆÛاں بڑے مزے دار اور دلکش نظارے Ûوتے تھے۔ پارک Ú©ÛŒ چار دیواری Ú©Û’ باÛر جنگلے Ú©Û’ ساتھ ساتھ Ûر طرØ+ Ú©Û’ پتھارے اور اڈے Ù„Ú¯Û’ Ûوئے تھے جÛاں تیل سے Ù„Û’ کر کان Ú©ÛŒ میل اور دانت نکالنے والے میسر Ûوتے تھے۔ کوئی Ù…Ûنگا سودا بھی Ù†Ûیں Ûوتا تھا۔ بس پتھارے دار کا تھوڑا چالاک اور چرب زبان Ûونا ضروری تھا اور ÛŒÛ Ø®Ø§ØµÛŒØª ان Ú©Û’ پاس ضرورت سے Ø²ÛŒØ§Ø¯Û ÛÛŒ موجود تھی۔ Ú©Ú†Ú¾ تو لوگ بھی سیدھے سادے تھے اور Ø§Ú©Ø«Ø±ÙˆÛ Ø®ÙˆØ¯ ÛÛŒ ان Ú©Û’ شیطانی چکر میں پھنس جاتے تھے۔ اسی دیوار Ú©Û’ ساتھ ÛÛŒ ایک دندان ساز بھی بیٹھا Ûوتا تھا، جو Ù†Û ØµØ±Ù Ø¯Ø§Ù†Øª کا کیڑا نکالتا Ø¨Ù„Ú©Û Ø§ÛŒÚ© روپے Ú©ÛŒ ادائیگی Ù¾Ø±ØªÚ©Ù„ÛŒÙ Ø¯Û Ø¯Ø§Ú‘Ú¾ بھی نکال پھینکتا ØªÚ¾Ø§Û”ÙˆÛ Ø§ÛŒÚ© Ûاتھ سے پوری طاقت Ú©Û’ ساتھ مریض کا سر Ù¾Ú©Ú‘ کر دوسرے Ûاتھ سے سیدھا ÛÛŒ اس Ú©ÛŒ دکھتی Ûوئی داڑھ پر جمبور رکھ کر اسے دبوچ لیتا اور پھر پورا زور لگا کر داڑھ Ú©Ùˆ دائیں بائیں گھما کر باÛر کھینچ لیتا۔ کام تمام Ûونے پر ÙˆÛ Ø§Ø³ چیختے چلاتے شخص Ú©Ùˆ مطلع کرتا Ú©Û ÙˆÛ Ø§Ø¨ مزید غم Ù†Û Ú©Ø±Û’ کیوں Ú©Û Ø´Ú©Ø³Øª Ùˆ ریخت کا مکمل عمل بخیر Ùˆ خوبی انجام پا گیا ÛÛ’ Û” داڑھ نکلوانے Ú©Û’ بعد مریض خون تھوکتا، بڑبڑاتا اور اس Ú©Ùˆ برے Ù„Ùظوں سے یاد کرتا ÙˆÛاں سے چلا جاتا تھا۔ دانتوں کا کیڑا نکالنا بھی اس Ú©Û’ بائیں Ûاتھ کا کھیل تھا، Ú©ÛŒÙˆÙ†Ú©Û Ø§Ø³ کام Ú©Û’ لیے ÙˆÛ Ø¨Ø§ÛŒØ§Úº Ûاتھ ÛÛŒ استعمال کرتا تھا Û” ÙˆÛ Ú©Ø³ÛŒ بھی پیلے پیلے سال Ø®ÙˆØ±Ø¯Û Ø³Û’ دانتوں والے شکار Ú©Ùˆ پھانسنے Ú©Û’ لیے اسے پاس بلا کر Ú©Ûتا Ú©Û Ø°Ø±Ø§ اپنے دانت دکھاؤ Û” ÙˆÛ Ø§ÛŒØ³Ø§ ÛÛŒ کرتا اور اپنا بھاڑ سا Ù…Ù†Û Ú©Ú¾ÙˆÙ„ کر اس Ú©Û’ آگے کر دیتا Û” ÙˆÛ Ø§Ø³ Ú©Û’ دانتوں اور مسوڑھوں پر اپنا گندا سا Ûاتھ پھیرتے Ûوئے اپنا Ù…Ø+Ùوظ ÙÛŒØµÙ„Û Ø³Ù†Ø§ دیتا Ú©Û Ø§Ø³ Ú©ÛŒ ایک یا دو داڑھوں میں کیڑا لگا Ûوا ÛÛ’ جس Ú©Ùˆ Ùوری طور پر در بدر کرناضروری ÛÛ’ ÙˆØ±Ù†Û ÛŒÛ Ø³Ø§Ø±ÛŒ داڑھ Ú©Ùˆ کھا جائے گا Û” ÙˆÛ Ø§Ø³Û’ ÛŒÛ Ù¾ÛŒØ´Ú©Ø´ بھی کر Ø¯ÛŒØªØ§Ú©Û Ø§Ú¯Ø± ÙˆÛ Ø§Ù“Ù¹Ú¾ آنے کا انتظام کرلے تو ÙˆÛ Ù†Û ØµØ±Ù ÛŒÛ Ú©Û Ø§Ø³ کا کیڑا نکا Ù„Û’ گا Ø¨Ù„Ú©Û Ø§Ø³ Ú©ÛŒ تسلی اور تشÙÛŒ Ú©Û’ لیے ÛŒÛ Ø¹Ù…Ù„ سب Ø+اضرین Ù…Ø+ÙÙ„ Ú©Ùˆ بھی دکھائے گا۔ Ú†Ù†Ø§Ù†Ú†Û Ù…Ø·Ù„ÙˆØ¨Û Ù†Ù‚Ø¯ÛŒ وصول کرکے ÙˆÛ Ø§ÛŒØ³Ø§ ÛÛŒ کرتا تھا Û” ÙˆÛ Ù…Ø±ÛŒØ¶ Ú©Û’ Ù…Ù†Û Ù…ÛŒÚº ایک گھونٹ Ûلکا سا سرخ پانی ڈا Ù„ کر ایک بار پھر اپنی انگلی سے اس Ú©Û’ دانتوں اور مسوڑھوںکی مالش کرتا، پھر اس Ú©Û’ Ù…Ù†Û Ú©Û’ سامنے مومی کاغذ کا ایک ٹکڑا رکھ دیتا اور Ú©Ûتا Ú©Û Ù…Ù†Û Ù…ÛŒÚº جو Ú©Ú†Ú¾ بھی ÛÛ’ ÙˆÛ Ø§Ø³Û’ ÛŒÛاں اÙÚ¯Ù„ دے۔ اس دوران مجمع میں سے کئی لوگ تماشا دیکھنے Ú©Ùˆ ان Ú©Û’ قریب آن Ú©Ú¾Ú‘Û’ Ûوتے تھے۔ اس کاغذ میں اÙÚ¯Ù„Û’ Ûوئے رنگین تھوک میں سے ÙˆÛ ØªÙ†Ú©Û’ Ú©ÛŒ مدد سے سÙید رنگ کا ایک چھوٹا سا کیڑا برآمد کرتا اور سب سے Ù¾ÛÙ„Û’ مریض Ú©Ùˆ اور پھر آس پاس Ú©Ú¾Ú‘Û’ Ûوئے متجسس لوگوں Ú©Ùˆ اس کا دیدار کرواتا Û” ÛŒÛ Ø§ÛŒÚ© ننھا سا دیمک Ú©ÛŒ طرØ+ کا کیڑا Ûوتا جو Ø+رکت بھی کرتا تھا Û” Ùال نکالنے والے اس وقت بھی بالکل اسی طرØ+ Ùال نکالتے تھے جس طرØ+ آج کرتے Ûیں۔ پنجرے میں دو طوطے Ûوتے تھے۔ ایک تو اندر کسی پوستی Ú©ÛŒ طرØ+ اونگھتا رÛتا Ø¬Ø¨Ú©Û Ø¯ÙˆØ³Ø±Ø§ Ûر وقت ڈیوٹی پر موجود رÛتا اور ایک سیکنڈ Ú©Û’ نوٹس پر چھلانگ مار کر چھوٹی سی Ú†Ú¾Ú‘ÛŒ پر Ú†Ú‘Ú¾ کر بیٹھ جاتا۔ اس Ú©Ùˆ ترتیب سے بچھائے Ûوئے Ú©Ú†Ú¾ Ù„ÙاÙÙˆÚº Ú©Û’ قریب Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دیا جاتا۔ ÙˆÛ Ø§Ù† Ù„ÙاÙÙˆÚº Ú©Û’ ارد گرد تھوڑی سی Ú†ÛÙ„ قدمی کرکے کوئی سا ایک Ù„ÙاÙÛ Ú†ÙˆÙ†Ú† سے اٹھا کر مالک Ú©Ùˆ تھما دیتا جو Ùوراً ÛÛŒ اس میں سے کارڈ نکال کر Ùال نکلوانے والے Ú©Ùˆ Ùر Ùر Ù¾Ú‘Ú¾ کر سنا دیتا۔اس میں درج ایک دو پریشانیوں، گھریلو جھگڑوں، Ú©Ú†Ú¾ روزگار Ú©Û’ مسائل اور جادو ٹونے کا بتا کر آخر میں اسے پریشان Ù†Û Ûونے Ú©ÛŒ تلقین کرتا اور جلد ÛÛŒ اس Ú©ÛŒ سب مشکلیں ختم Ûونے Ú©ÛŒ خوش خبری دیتا۔ اس Ú©Û’ Ø¹Ù„Ø§ÙˆÛ Ø§Ø³ Ú©Û’ مستقبل قریب میں ÛÛŒ Ù„Ú©Ú¾ پتی بن جانے Ú©ÛŒ اطلاع بھی Ûوتی تھی۔ Ùال نکلوانے والا اپنے مستقبل Ú©Û’ بارے میں سب اچھا سن کر خوشی سے دانت نکالتا اور Ù…Ù‚Ø±Ø±Û Ùیس چارآنے Ú©Û’ Ø¹Ù„Ø§ÙˆÛ Ø§ÛŒÚ© دو آنے بخشش Ú©Û’ بھی دے دیتا۔ اور پھر ÙˆÛ Ùوراً ÛÛŒ اپنے آپ Ú©Ùˆ Ù„Ú©Ú¾ پتی سمجھنے لگتا تھا۔ دولت مندی کا اØ+ساس Ûوتے ÛÛŒ اس Ú©ÛŒ چال ÛÛŒ بدل جاتی تھی اور ÙˆÛ Ø®ÙˆØ¯ Ú©Ùˆ دوسروں سے تھوڑا بلند پاتا۔ ویسے اگر اس طوطے والے Ú©Û’ سارے کارڈ نکلوا کر ایک ساتھ Ù¾Ú‘Ú¾Û’ جاتے تو تقریباً سب کا Ù…ÙÛوم اور مضمون ایک ÛÛŒ جیسا Ûوتا تھا۔ ÙˆÛیں Ú©Ûیں ایک نجومی بھی Ø§ÚˆÛ Ù„Ú¯Ø§Ø¦Û’ بیٹھا Ûوتا تھا جس Ù†Û’ پیچھے بورڈ پر اپنے آپ Ú©Ùˆ پروÙیسر ظاÛر کیا Ûوا تھا اور دوتین عجیب Ùˆ غریب ڈگریاں بھی لکھوا رکھی تھیں جو شاید ÙˆÛ Ø®ÙˆØ¯ بھی Ù†Û Ù¾Ú‘Ú¾ سکتا ÛÙˆÛ” اس Ú©Û’ Ûاتھ میں ایک Ù…Ø+دب Ø¹Ø¯Ø³Û ÛÙˆ تا تھا Û” اس نجومی Ú©Ùˆ اپنے سوا Ûر ایک Ú©ÛŒ قسمت کاØ+ال معلوم Ûوتا تھا۔ ÙˆÛ Ø¹Ø¯Ø³Û’ Ú©ÛŒ مدد سے سائل Ú©Û’ Ûاتھوں Ú©ÛŒ ساری لکیروں کا بغور Ø¬Ø§Ø¦Ø²Û Ù„Û’ کر ایک ایسی لکیر Ú©Ùˆ دریاÙت کرتا جو سامنے بیٹھے Ûوئے معصوم مگر اچھی خبر سننے Ú©Û’ منتظر شخص Ú©Ùˆ پریشان کیے Ûوئے Ûوتی تھی Û” ÙˆÛ Ø§Ø³ Ú©Ùˆ نجوم کا سبق پڑھاتا اورمختصراً دل اور دماغ Ú©ÛŒ لکیروں Ú©Û’ Ø¹Ù„Ø§ÙˆÛ Ù†ÙˆÚ©Ø±ÛŒ اور شادی Ú©ÛŒ لکیریں بھی دکھاتا تھا۔ غیر شادی Ø´Ø¯Û Ø´Ø®Øµ Ú©Ùˆ بھی ÙˆÛ Ø¯Ùˆ تین شادیاں بتا دیتا تھا ØŒ اور پھر بار بار اسے یاد دلاتا Ú©Û ÛŒÛ ÙˆÛ Ù†Ûیں Ú©ÛÛ Ø±Ûا Ø¨Ù„Ú©Û Ø§Ø³ Ú©Û’ Ûاتھ Ú©ÛŒ لکیریں بولتی Ûیں Û” جب ÙˆÛ Ø§ÛŒÚ© دو گاÛÚ©ÙˆÚº Ú©Ùˆ بھگتا لیتا تو سامنے ملباری Ú©Û’ Ú©Ú¾ÙˆÚ©Ú¾Û’ سے ڈبل ملائی مروا Ú©Û’ چائے کا ایک Ú©Ù¾ منگواتا اور تلوار مارکا بیڑی کا ایک Ú©Ø´ Ù„Û’ کر اپنی قسمت Ú©Ùˆ کوستا Ûوا دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتا۔ ویسے تنÛائی Ù…ÛŒÚºÙˆÛ Ø¯Ù„ میںسوچتا تو ضرور ÛÙˆ گا Ú©Û Ø§Ø³ Ú©ÛŒ اپنی قسمت Ù†Û Ø¬Ø§Ù†Û’ Ú©Ûاں جا سوئی تھی جو ÙˆÛ Ø§Ø³ ÙÙ¹ پاتھ پر بیٹھا خجل خوار ÛÙˆ رÛا تھا۔ ویسے تو کراچی میں Ø¬Ú¯Û Ø¬Ú¯Û Ø+جاموں Ú©Û’ دکانیں تھیں جن Ú©Ùˆ Ûیئر کٹنگ سیلون Ú©Ûا جاتا تھا ۔اس وقت آٹھ آنے میں بڑوں اور چار آنے میں بچوں Ú©ÛŒ Ø+جامت بنا دی جاتی تھی۔ شیو Ú©Û’ لیے تو دو آنے ÛÛŒ کاÙÛŒ تھے۔ تاÛÙ… ÛŒÛÛŒ کام سڑک پر بیٹھے Ûوئے یا گھومتے پھرتے گشتی نائی آدھی قیمت میں ÛÛŒ کر دیا کرتے تھے۔ جÛاں کسی Ù†Û’ بال کٹوانے Ú©ÛŒ خواÛØ´ کا اظÛار کیا ØŒ ÙˆÛیں اس Ú©Ùˆ سڑک کنارے بٹھا کر اس کا کام تمام کر دیا۔ شیو Ú©Û’ لیے دھات Ú©ÛŒ ایک چھوٹی سی زنگ آلود ڈبیا میں صابن Ú©ÛŒ گول سی گھسی پٹی ٹکیا Ûوتی تھی جس Ú©Ùˆ بÛت Ú©Ù… بالوں والے برش پر رگڑ رگڑ کر Ú©Ú†Ú¾ جھاگ بنا لیا جاتا تھا۔ پھرپرانے زمانے کا ایک روایتی استرا نکال کر Ù¾ÛÙ„Û’ اسے پتھر Ú©ÛŒ وٹی پر اورپھر Ú†Ù…Ú‘ Û’ Ú©Û’ Ù¹Ú©Ú‘Û’ پررگڑ کر تیزکر لیا جاتا تھا۔ ان Ú©Û’ بیگ میں ایک کنگھا ØŒ ایک Ø¨ÙˆØ³ÛŒØ¯Û Ø³ÛŒ بغیر سپرنگ والی بال کاٹنے Ú©ÛŒ مشین اور ایک آدھ قینچی Ûوتی تھی ۔اس Ú©Û’ Ø¹Ù„Ø§ÙˆÛ Ø§Ø³ Ú©Û’ پاس ناخن تراشنے Ú©ÛŒ سÛولت بھی Ûوتی تھی۔ ÛŒÛ Ø§ÛŒÚ© تیز دھاروالا Ù†Ûرنا Ûوتا تھا جس سے ÙˆÛ Ø+سب Ùرمائش بڑی صÙائی سے Ù…Ùت میں ÛÛŒ ÛŒÛ Ú©Ø§Ù… کر دیتا تھا۔ (’’ایسا تھا میرا کراچی‘‘ سے اقتباس)