اچھے رشتوں کی تلاش
تحریر : مفتی محمد یونس پالنوری
آج کل بہت سے لوگ شریک حیات کے انتخاب میں مال و دولت،حسب و نسب،حسن و جمال کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ باتیں اپنی جگہ اہم ہیں۔ اسی لئے شریف گھرانے کی لڑکیوں کو رشتہ ملنے میںدشواری پیش آرہی ہے ۔بہت سی عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کے لیے ، ان کی شاباشی حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو تباہ کررہی ہیں ، خودپر ظلم کررہی ہیں ۔ اکثرلڑکے کم پڑھی لکھی ، کم عمر ، دینداراور خوبصورت لڑکیوں سے شادی کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ خاندان اور حسب و نسب بھی نظر انداز کر دینے کے قابل نہیں ہیں۔ بعض خاندان یا برادریاں جو عرصۂ دراز سے پسماندہ ہیں ان میں بعض معاشرتی، ذہنی اور اخلاقی کمزوریاں ضرور ہوتی ہیں اور طرزِ معاشرت، اندازِ فکر اور سلوک و برتائو کا فرق بعض اوقات اس درجہ اثر انداز ہوتا ہے کہ خوشگوار ازدواجی زندگی کی توقع ہی نہیں کی جا سکتی۔
انتخاب میں حسن و جمال کو بھی بنیادی اہمیت حاصل ہے اور لڑکی کے انتخاب میں تو خاص طور پر یہی چیز فیصلہ کن ہوتی ہے۔ اس سے انکار کی کیا گنجائش ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو ذوقِ جمال دیا ہے اور خوبصورتی پسند کرنے ہی کی چیز ہے۔تعلیم کی اہمیت اور ضرورت بھی مسلم ہے اور دورِ حاضر میں تو تعلیم اور ڈگری کا رشتے کے معاملے میں خصوصی خیال رکھا جانے لگا ہے۔
یہ واقعہ ہے کہ اونچی تعلیم حوصلوں کو بلند کرتی ہے۔ تہذیب سے آراستہ کرتی ہے، عزت و احترام کا ذریعہ بنتی ہے، خوشحال زندگی اور سماج میں وقعت و عظمت کا سبب بنتی ہے۔رہا دین و اخلاق کا معاملہ تو ظاہر ہے مسلمان کے نزدیک اس کی اہمیت اور قدر تو ہونا ہی چاہئے۔ مسلمان ماں یہ کیسے گوارا کر سکتی ہے کہ وہ زیر تجویز فرد میں سب کچھ تو دیکھے لیکن اس پہلو کو نظر انداز کر دے یا اسے کوئی اہمیت ہی نہ دے۔
آپ کی خواہش، آرزو اور کوشش اگر یہ ہے کہ آپ کی بیٹی یا بیٹے کو ایسا شریک زندگی ملے جو ان پانچوں خوبیوں میں معیاری ہو تو آپ کی تمنا بھی مبارک، آپ کی آروز بھی درست اور آپ کی کوشش بھی حق بجانب۔ کون نہیں چاہے گا کہ اس کے جگر گوشے کو ایسا ہی جوڑا ملے جو ان پانچوں خوبیوں سے آراستہ ہو۔اسلام آپ کی اس خواہش، تمنا اور کوشش کی ہرگز ناقدری نہیں کرتا۔ وہ آپ کے ان جذبات کا احترام کرتا ہے۔
حضرت رسول اﷲ ﷺکی ہدایت یہ ہے کہ آپ انتخاب کرتے وقت دین و اخلاق کو اوّلین اہمیت دیں۔ دین و اخلاق کے ساتھ دوسری چار چیزوں میں سے جو بھی میسر آجائیں اس پر اﷲ کا شکر ادا کریں اور پھر بے وجہ ٹال مٹول نہ کریں۔ ہاں وہ رشتہ آپ کے لئے ہرگز قابل قبول نہ ہونا چاہئے جس میں ساری خوبیاں تو ہوں مگر دین و اخلاق کی طرف سے مایوسی ہو۔ مسلمان ماں باپ کے لئے دیکھنے کی اوّلین چیز دین و اخلاق ہے، جو شخص اس سے کورا ہے وہ دوسری تمام چیزوں میں مثالی ہو تو بھی اس لائق نہیں کہ آپ اپنے جگر گوشے کے لئے اس کا انتخاب کریں۔ اسے اپنے گھر کی بہو بنائیں یا اپنا داماد بنائیں۔ دوسری تمام چیزوں کے نقص کی تلافی تو دین و اخلاق سے ہو سکتی ہے، یا یوں کہئے دین و اخلاق کی خاطر دوسری کمزوریوں کو تو گوارا کیا جا سکتا ہے لیکن کسی بڑی سے بڑی خوبی کی خاطر بھی دین و اخلاق سے محرومی کو گوارا نہیں کیا جا سکتا، دین و اخلاق کی تلافی کسی دوسری خوبی سے نہیں ہو سکتی۔ اﷲ کے رسول ﷺکی ہدایت ہے۔
’’نکاح کے لئے عام طور پر عورت میں چار چیزیں دیکھی جاتی ہیں۔ مال و دولت - خاندانی شرافت، حسن و جمال / دین و اخلاق۔ تم دیندار عورتوں سے شادی کرو تمہارا بھلا ہو۔‘‘
یہ حدیث شریف آپ کو بتاتی ہے کہ آپ اپنے بیٹے کے لئے ایسی بہو بیاہ کر لائیں جو دیندار ہو اور اسلامی اخلاق سے آراستہ ہو۔ ایسی بہو کے ذریعہ ہی آپ کا گھر اسلام کا گہوارہ بن سکتا ہے اور ایسی بہو سے ہی توقع کی جا سکتی ہے کہ اس کی گود سے ایسی نسل اُٹھے جو دین و ایمان اور اسلام کے لئے جذبہ اشاعت و جہاد سے سرشار ہو۔اسی طرح داماد اور بہو کے انتخاب کے لئے بھی آپ ﷺکی ہدایت ہے کہ دین و اخلاق ہی کو بنیادی اہمیت دینی چاہئے۔حضرت ابوہریرہ ؓکا بیان ہے کہ رسول اﷲ ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’جب تمہارے یہاں کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام بھیجے جس کے دین و اخلاق سے تم مطمئن اور خوش ہو تو اس سے اپنے جگر گوشے کی شادی کر دو۔ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں زبردست فساد پھیل جائے گا۔‘‘
یہ حدیث آپ کو فیصلہ کن انداز میں بتاتی ہے کہ جب آپ کے یہاں کسی ایسے لڑکے کا پیغام آجائے جس کے دین و اخلاق کی طرف سے آپ کو اطمینان ہو، آپ کی یقینی معلومات یہ ہوں کہ یہ خدا ترس، دیندار، صوم و صلوٰۃ کا پابند اور اسلامی اخلاق سے آراستہ ہے تو پھر بلاوجہ تاخیر اور ٹال مٹول کرنا کسی طرح صحیح نہیں۔ اﷲ کے بھروسے پر اس کے ساتھ ہی شادی کر دیجئے اور خیر کی توقع رکھئے۔ اس لئے کہ رشتہ نکاح میں مسلمان کے لئے اوّلین اہمیت کی چیز دین و ایمان ہی ہے اور جس سماج میں دین و ایمان کو نظرانداز کر کے دوسری چیزوں کو اہمیت دی جائے یا مال و دولت اور حسن و جمال کو دین و اخلاق پر ترجیح دی جائے تو ایسے سماج میں فتنہ و فساد کا طوفان اُٹھ کر رہے گا اور دُنیا کی کوئی طاقت ایسے سماج کو اس طوفان سے بچا نہ سکے گی۔
بچے کی شادی میں تاخیر بالعموم اس لئے ہوتی ہے کہ مناسب رشتہ نہیں مل پاتا۔ آپ کی یہ خواہش اور کوشش بالکل بجا ہے کہ آپ کے بیٹے یا بیٹی کے لئے مناسب رشتہ ملے بلکہ یہ فکر و جستجو آپ کا فرض ہے۔ اسلامی تعلیمات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ آپ مناسب رشتہ کے لئے پوری جدوجہد کریں۔اسلام کا مطالبہ آپ سے یہ ہرگز نہیں ہے کہ آپ کو جو بھلا برا رشتہ مل جائے، آنکھ بند کر کے بس اسے قبول ہی کر ڈالیں، اور اس معاملے میں کچھ غور و خوض نہ کریں۔ شادی نہایت اہم معاملہ ہے۔ پوری زندگی کا مسئلہ ہے۔ نہ صرف دُنیا کے بننے بگڑنے تک اس کے اثرات محدود ہیں بلکہ آخرت کی زندگی پر بھی اس کے اثرات پڑ سکتے ہیں۔
آپ کی سوچ بچار اسلام کی روشنی میں ہو۔ انتخاب کا جو معیار اسلام نے بتایا ہے وہی آپ کے پیش نظر ہو۔ اس کا جائزہ لینا ضروری ہے اپنی اولاد کے لئے شریک حیات کے انتخاب میں انہیں بنیادوں کو سامنے رکھئے جن کو پیش نظر رکھنے کی اسلام نے ہدایت دی ہے۔ بے لاگ جائزہ لیجئے کہ بچے کی شادی میں کہیں اس لئے تو تاخیر نہیں ہو رہی ہے کہ آپ نے لڑکے یا لڑکی کے انتخاب میں کچھ ایسی باتوں کو اہمیت دے رکھی ہے جن کی دین میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ آپ اور باتوں کو اس لئے اہمیت دے رہے ہیں کہ سماج میں عام طور پر انہی کو اہمیت دی جا رہی ہے یا آپ کو اس لئے ان پراصرار ہے کہ آپ نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ اس سلسلے میں اسلام کی تعلیمات و ہدایات کیا ہیں۔
اگر آپ کو ایسا جوڑا مل جائے جس میں یہ ساری خوبیاں موجود ہوں تو یقین کیجئے کہ اﷲ کی خصوصی نوازش ہے۔ مگر عام حالات میں یہ انتہائی مشکل ہے کہ ہر رشتے کے لئے آپ کو یہ ساری خوبیاں یکجا مل جائیں۔ کسی میں کچھ خوبیاں ملیں گی تو کچھ خرابیاں بھی ہوں گی۔ دراصل اسی میں آپ کا امتحان ہے کہ آپ انتخاب میں اسلامی نقطہ نظر اپنے سامنے رکھیں اور اُن ہی خوبیوں کو وجہ ترجیح بنائیں جن کو اسلام نے ترجیح دی ہے۔میںآخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ خواتین گھر میں سلامتی کے لئے دعا کیا کریں، جتنی عورتیں شادی شدہ ہیں وہ تو ضرور ہی پڑھیں لیکن جو بڑی عمر کی بچیاں ہیں سمجھدار ہیں ، وہ بھی پڑھیں ، جب اللہ تعالیٰ اپنے وقت پر ان کے گھر آباد کر دیں گے تو انشاء اللہ ان کو خوشیاں نصیب ہوں گی۔