پاکیزہ دل پورے جسم کے صحیح ہونے کا ضامن ہے
تحریر : مولانا حافظ زبیر حسن اشرفی
ہمارے جسم میں خون کی گردش کو برقرار رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے دل کی ایسی مشین رکھ دی ہے کہ اگر حرکت قلب جاری ہو تو انسان کو زندہ سمجھا جاتا ہے اور جب اس کی حرکت بند ہو جائے تو وہ انسان مردہ کہلاتا ہے ایک تو یہ دل ہے جس سے جسم کی زندگی اور موت کا تعلق ہے دوسری طرف اسلامی تعلیمات میں انسان کے باطن یعنی اس کے اندر کی حقیقت کا تعلق بھی دل ہی کے ساتھ وابستہ ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’آگاہ رہو جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست رہے تو تمام بدن درست رہتا ہے اور جب وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے فرمایا کہ وہ گوشت کا ٹکڑا دل ہے۔‘‘(بخاری و مسلم) جب حق کو دیکھنے کے باوجود لوگوں نے اسے تسلیم نہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے سورۂ حج کی چھیالیسویں آیت میں فرمایا: ’’یعنی بلاشبہ ان لوگوں کی آنکھیں نہیں لیکن ان کے دل اندھے ہیں جو سینوں میں ہیں۔‘‘
جس طرح ہماری روز مرہ کی زندگی میں آنکھوں سے دیکھنے کے لیے دو روشنیوں کی ضرورت ہوتی ہے ایک آنکھ کی روشنی اور دوسری باہر کی روشنی‘ اگر نابینا ہو تو دن کی چمکتی دھوپ میں بھی نہیں دیکھ سکتا اور اگر آنکھیں تو صحیح سلامت ہوں لیکن باہر گہری تاریکی ہو تو بھی دیکھ نہیں سکے گا بالکل اسی طرح انسان کے لیے معاشرہ میں صحیح سوچ رکھنے‘ صحیح عمل کرنے اور درست زندگی گزارنے کے لیے بھی دوروشنیوں کی ضرورت ہے ایک دل کی روشنی اور دوسری اسلامی تعلیمات کی روشنی اگر ان میں سے ایک بھی روشنی نہ رہے تو یہ انسان زندگی میں گمراہی کے سوا کچھ بھی نہ پا سکے گا معلوم ہوا کہ انسان کو اسلامی تعلیمات سے آگاہی کے ساتھ ساتھ دل کو بھی تندرست، روشنی سے منور اور پاک و صاف رکھنا ہو گا جب ہی یہ انسان دنیا کی زندگی اور آخرت کی دائمی زندگی میں کامیابی کی دولت سے سرفراز ہو گا۔
دل کوکن چیزوں سے پاک وصاف رکھا جائے اس بارے میں اللہ رب العزت نے قرآن حکیم میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں خوب واضح فرما دیا۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب اربعین میں دل کی ان بیماریوں کو ایک جگہ جمع کیا اور پھر سب سے پہلے دل کی بیماری یہ بتائی کہ دل کو حرص و لالچ سے پاک رکھنا چاہیے کیونکہ حرص و لالچ دل میں آجائے تو پھر انسان کو دو چیزوں کی طلب بہت زیادہ ہو جاتی ہے ایک مال اور دوسرا مرتبہ، جسے حبّ جاہ کا نام دیا جب یہ دو باتیں انسان کے دل کے اندر آجائیں تو پھر تکبر، ریاکاری، حسد، کینہ، عداوت جیسی آفتیں دل میں جمع ہو جائیں گی جو آخرت و دنیا کوتباہ کرنے والی ہیں اس لیے دل کو ان تمام بیماریوں سے پاک کرنا لازمی ہے۔ دل میں تکبر پیدا ہوا تو پھر دوسروں کے بارے میں دل میں حقارت آجائے گی اور اسی وقت انسان اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ شخص بن جاتا ہے‘ دل میں ریاکاری، دکھلاوا آگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوٹا شرک قرار دیا‘ حسد پیدا ہوا تو فرمایا کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے لہٰذا جب دل سے ان تمام بیماریوں کو صاف کر لیا جائے تو اس کے ساتھ ان خوبیوں سے دل کو آراستہ اور منور کیا جائے
جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ داغ پڑ جاتا ہے پھر جب وہ توبہ کرتا ہے تو داغ دھل کر دل صاف ہو جاتا ہے اور اگر گناہ کرتا رہے توبہ نہ کرے تو دل داغ پڑتے پڑتے سیاہ ہو جاتا ہے اب ذہن میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ گناہ تو بار بار انسان کرتا رہتا ہے تو پھر بار بار توبہ کرنا کچھ عجیب سا لگتا ہے جب انسان سے گناہ ہونا ہی ہے تو پھر توبہ کا کیا فائدہ؟ جب بھی ذہن میں یہ خیال آئے تو سوچئے تو سہی انسان نئے اور صاف ستھرے کپڑے آج پہنے پھر جب میلے ہو جائیں گے تو انہی کپڑوں کو دھلوا کر پہن لیں گے پھر میلے ہوں گے تو پھر دھلوالیں گے تو جب ان کپڑوں نے میلا ہونا ہی ہے تو پھر بار بار دھلوانے کی کیا ضرورت ہے۔ میلا ہونے دیا جائے۔ جب بالکل خراب ہو جائیں تو ضائع کر دیا جائے حالانکہ کوئی سمجھ دار انسان ایسا نہیں کرتا۔
بالکل اسی طرح انسان کا دل اگر اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے میلا ہو جائے تو اسے بھی بار بار صاف کر لیا جائے ورنہ یہ دل بھی اگر اس قدر میلا ہو گیا تو پورے انسانی نظام کی خرابی کا سبب بن جائے گا اور توبہ کی توفیق جب ہوتی ہے جبکہ دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور ڈر موجود ہو پھر اس دل کے اندر صبر کی دولت ہو جس سے وہ دل پر آنے والی مصیبتوں کو بخوشی جھیل سکے اور جب نعمتوں سے زندگی آرام سے گزرنے لگے تو یہ انسان اب دل کے اندر شکر جیسی نعمت پیدا کرے‘ جب بھلائی کرنے لگے تو دل کے اندر خلوص کو خوب اچھی طرح سنبھال کر رکھے کہیں ریا کاری نہ آجائے کہیں حقارت اور دل آزاری نہ آجائے اور جتنی نعمتیں ملیں ان پر قناعت ہو‘ مزید نعمتوں کے لیے اللہ پر توکل رکھتے ہوئے دن رات کوشش و محنت میں لگا رہے‘ لیکن دل میں دنیا کی محبت اور حرص جگہ نہ بنا سکیں۔ اسلام دنیا سے دور رہنے کی تعلیم نہیں دیتا اور نہ دنیا چھوڑ چھاڑ کر جنگلوں میں نکلنے کی تعلیم دیتا ہے‘ انسان اور دنیا میں کس قسم کا تعلق ہونا چاہیے؟ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں بڑی خوبصورت مثال دی فرمایا کہ دنیا اور انسان کا تعلق اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ کشتی اور پانی کا تعلق‘ کشتی بغیر پانی کے بالکل بے کار ہے اس کی صلاحیت پانی کے بغیر ظاہر نہیں ہو سکتی اسی طرح انسان کی صلاحیتیں بھی بغیر دنیا کے بیکار ہیں البتہ ایک احتیاط کی ضرورت ہے کہ وہ پانی کشتی کے اندر نہ داخل ہونے پائے بس یہ کشتی پانی کے اوپر چلتی رہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے منزل تک پہنچ جائے لیکن اگر وہ پانی کشتی کے اندر داخل ہو گیا تو یہ کشتی ڈوب جائے گی، فرمایا کہ اسی طرح انسان دنیا اور اس کی چیزوں سے فائدہ اٹھاتا رہے لیکن اس دنیا کو اپنے دل کے اندر نہ آنے دے اگر یہ دل کے اندر آگئی تو پھر فلاح و کامیابی کی منزل تک پہنچنا انسان کے لیے بہت مشکل ہو جائے گا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’ دل کو بھی لوہے کی طرح زنگ لگ جاتا ہے اور اس زنگ کا علاج تلاوت قرآن حکیم اور موت کا دھیان ہے‘‘۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ دل کو سکون اللہ کی یاد ہی سے نصیب ہوتا ہے ‘‘۔آخر میںہم بھی وہی دعا زبان پر لاتے ہیں جو دل کی صفائی کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی:
’’اے اللہ میرے دل کو غلطیوں اور گناہوں سے ایسا صاف فرما دے جیسے سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔‘
Good Post
Behtreen Janaab.....