ایس ایم یوسف وہ شاندار ہدایت کار تھے اور بڑی کامیاب فلمیں بنائیں
تقسیم ہند کے کچھ سال بعد کئی مسلم ہدایت کار ہندوستان کی فلمی صنعت چھوڑ کر پاکستان آ گئے۔ پاکستان آنے والوں میں کئی اداکار بھی شامل تھے جنہوں نے ہندوستان کی فلمی صنعت میں کئی برس تک کام کیا اور اپنی شاندار اداکاری کی بدولت بہت شہرت حاصل کی۔ ان بے مثال اداکاروں میں ایم اسماعیل، علاؤ الدین، ایم اجمل، غلام محمد، ہمالیہ والا اور کئی دوسرے فنکار شامل تھے۔ آہو چشم راگنی اور معروف نغمہ نگار ناظم پانی پتی بھی پاکستان آ چکے تھے اور ان سے پہلے میڈم نور جہاں اور شوکت حسین رضوی بھی ہندوستانی فلمی صنعت چھوڑ کر لاہور آ گئے تھے۔ غالباً 1955کے بعد ایک ہدایت کار ایس ایم یوسف بھی پاکستان چلے آئے۔ ایس ایم یوسف جب پاکستان آئے تو ہندوستان میں ان کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا۔ انہوں نے ہندوستان میں ’’مہندی، نیک پروین، آئینہ اور گرہستی‘‘ جیسی ہٹ فلمیں بنائیں۔ ممبئی میں پیدا ہونے والے ایس ایم یوسف نے سماجی موضوعات پر فلمیں بنائیں۔ یہ ان کا کریڈٹ ہے کہ انہوں نے سماجی اقدار کو دوبارہ زندہ کیا۔ ان کی ہر فلم میں ایک پیغام ہوتا تھا اور معاشرے کی اصلاح کے لئے وہ جو کچھ کر سکتے تھے، انہوں نے کیا۔ اگر انہیں ایک ریفارمر کہا جائے تو یہ غلط نہ ہوگا۔ آج بھی ان کا نام برصغیر کے دس صفِ اول کے ہدایت کاروں میں شامل ہے۔ ایس ایم یوسف جب پاکستان آئے تو یہاں بھی انہوں نے بڑی معیاری فلمیں بنائیں۔ انہوں نے اپنی فلموں میں نہ صرف مشرقی اقدار کو اُجاگر کیا بلکہ معاشرے میں عورت کے کردار کی اہمیت کو بھی واضح کیا۔ ایس ایم یوسف کا نظریہ یہ تھا کہ اگر آپ اپنے گھر کے معاملات کو درست سمت میں چلائیں تو اس سے مجموعی طور پر آپ کے ملک میں بھی بہتری آئے گی۔ ان کی فلم ’’آشیانہ‘‘ اسی حقیقت کی غماز ہے کہ اگر ایک اچھی بیوی پورے خاندان کی سوچ تبدیل کر دیتی ہے اور گھریلو لڑکیوں کی زندگی میں ایک نیا جذبہ پیدا کرتی ہے تو ’’آشیانہ‘‘ بالکل محفوظ ہو جاتا ہے اور ایک تعلیم یافتہ بہو ہی ایسا کر سکتی ہے جس کی اپنی تربیت ایسے افراد نے کی ہو جو سچائی اور دیانت داری کا مجسمہ ہوں۔ فلم ’’آشیانہ‘‘ میں ایسی بہو کا کردار زیبا نے کیا تھا اور انہوں نے اپنے کردار میں حقیقت کا رنگ بھر دیا تھا۔ انہوں نے صحیح معنوں میں نیک پروین کا تصور اجاگر کیا۔ ایس ایم یوسف نے اپنا کیریئر ایک اداکار کی حیثیت سے شروع کیا اور بہت جلد یہ ثابت کر دیا کہ وہ بحری جہاز کے کپتان کی حیثیت سے جہاز کو طوفانی پانیوں سے بچا کے لے جا سکتے ہیں۔ ہدایت کار کی حیثیت سے ان کی پہلی فلم ’’بھارت کا لعل‘‘ تھی جو 1936 میں ریلیز ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے جن فلموں کی ہدایات دیں ان میں ’’دربان، آئینہ، نیک پروین، دیور، گرہستی، مہندی‘‘ اور دیگر فلمیں شامل تھیں۔ انہوں نے خاندانی مسائل کے علاوہ کچھ اور موضوعات پر بھی فلمیں بنائیں جن میں ’’گماشتہ، دولت، رنگیلا مزدور، کہاں ہے منزل تیری اور حیدر آباد کی نازنین‘‘ شامل ہیں۔ انہوں نے اپنے وقت کی مشہور ہیروئن نگار سلطانہ سے شادی کی اور 1960تک بھارت میں رہے۔ پاکستان میں انہوں نے اپنی فلم ’’مہندی‘‘ کو دوبارہ ’’سہیلی‘‘ کے نام سے بنایا جو سپرہٹ ثابت ہوئی۔ ’’سہیلی‘‘ کے نغمات نے بھی ہر طرف دھوم مچا دی تھی۔ اس فلم کی موسیقی اے حمید نے مرتب کی تھی۔ فلم میں نیئر سلطانہ، درپن، طالش، شمیم آرا اور اسلم پرویز نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ طالش کو شاندار اداکاری کرنے پر صدارتی ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ باقی اداکاروں کو نگار ایوارڈ ملا۔ نگار ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں ایس ایم یوسف بھی شامل تھے۔ 1962میں ان کی فلم ’’اولاد‘‘ ریلیز ہوئی اور یہ فلم بھی سپرہٹ ثابت ہوئی۔ اس دفعہ نیئر سلطانہ کے ساتھ حبیب کو کاسٹ کیا گیا اور وحید مراد کی یہ پہلی فلم تھی۔ اس فلم کی موسیقی بھی اے حمید نے ترتیب دی تھی۔ ’’اولاد‘‘ میں ماؤں کے لئے ایک زبردست پیغام دیا گیا تھا۔ ایس ایم یوسف کو اس فلم کی باکمال ہدایت کاری کرنے پر بھی نگار ایوارڈ دیا گیا۔ ایس ایم یوسف نے پاکستان میں 13 فلمیں بنائیں جن میں ’’سہیلی، اولاد، دلہن، آشیانہ، عید مبارک، ہونہار، سہاگن، شریکِ حیات، بہو رانی، زندگی ایک سفر ہے، ہار گیا انسان، نیک پروین اور گونج اٹھی شہنائی‘‘ شامل ہیں۔ ان کی فلموں کے نغمات بڑے معیاری ہوتے تھے۔ 1969میں ریلیز ہونے والی فلم ’’بہو رانی‘‘ بھارت میں بننے والی ان کی فلم ’’گماشتہ‘‘ کا ری میک تھی۔ فلم ’’بہو رانی‘‘ سے اداکار محمد قوی خان کو شہرت ملی۔ اس فلم میں انہوں نے محمد علی کے والد کا کردار ادا کیا تھا۔ انہیں فلم ’’آشیانہ‘‘ میں بھی خوبصورت ہدایت کاری کرنے پر نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1970 کی دہائی میں جب فلموں میں تشدد کا آغاز ہوا تو وہ بڑے مایوس ہوئے۔ ان کے بیٹے اقبال یوسف نے ایکشن فلمیں بنائیں ،وہ بھی ایک کامیاب ہدایت کار تھے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ ایس ایم یوسف نے وحید مراد اور محمد قوی جیسے اداکار متعارف کرائے اور اسلم پرویز کو پہلی بار ولن کی حیثیت سے فلم ’’سہیلی‘‘ میں کاسٹ کیا۔ اپنی عمر کے آخری حصے میں وہ کینیڈا شفٹ ہو گئے۔ 1994میں وہ چند دنوں کے لئے پاکستان آئے لیکن شاید ان کا وقت پورا ہو چکا تھا۔ 17اگست 1994کو یہ نادرِ روزگار ہدایت کار لاہور میں انتقال کر گیا۔ یہ قادرِ مطلق کا فیصلہ تھا کہ ان کی وفات اپنے ملک میں ہو۔ انہوں نے جو کام کیا، خوب کیا۔