تجھ کو ڈھونڈے ہے گزرتا ہوا پَل پَل جاناں
دیکھ ہم کب سے کھڑے ہیں سرِ مقتل جاناں
اب بھی ہونٹوں پہ الجھتے ہیں ترے نام کے حرف
اب بھی سانسوں میں مہکتا ہے وہی آنچل جاناں
اب بھی آنگن میں کسی دشت کی ویرانی ہے
اب بھی گلیوں میں وہی موسمِ جل تھل جاناں
اب بھی تصور میں اک چہرہ بُلاتا ہے مجھے
اب بھی آئینے میں اک عکس ہے اوجھل جاناں
اب بھی آنکھوں میں کی خواب کا سنّاٹا ہے
اب بھی ہے سطح پہ گہرائی کی ہل چل جاناں
اب بھی کچھ عشق کے آداب ہیں ہم لوگوں میں
اب بھی اس شہر میں ہم لوگ ہیں پاگل جاناں
ڈوبتا جاتا ہے بے وصل چراغوں کا دھواں
پھیلتا جاتا ہے اک ہجرِ مسلسل جاناں
ہم سے کچھ تیرے مراسم ہی بڑے گہرے تھے
ورنہ صحراؤں میں رکتے نہیں بادل جاناں
٭٭٭