گردشِ شام اور سحر میں تو
ہر پرندے کے بال و پر میں تو
مور کے پنکھ میں تری قدرت
برق، سیلاب اور بھنور میں تو
تیری توحید کی علامت ہیں
پھول، غنچہ، کلی، ثمر میں تو
ان کی تابندگی ہے امر ترا
لعل و یاقوت میں گہر میں تو
ریگِ صحرا میں، صحنِ گلشن میں
کھیت میں، دشت میں، کھنڈر میں تو
کوئی انکار کر نہیں سکتا
مٹی، پانی، ہوا، شرر میں تو
سارا عالم ہے تیرے قبضے میں
ملک، صوبہ، نگر نگر میں تو
یہ نتیجہ ہے حسنِ فطرت کا
بس گیا ہے مری نظر میں تو
دل میں ساحلؔ کے تو ہی رہتا ہے
اس کی مغموم چشمِ تر میں تو