وجود اُس کا ہے مشک و گلاب سے ظاہر
یہ جگمگائے ہوئے ماہتاب سے ظاہر
جو اُس کے حکم سے روشن ازل سے ہے اب تک
حریفِ ظلمتِ شب، آفتاب سے ظاہر
نسیم، برق، شرر، بادِ تند، قوسِ قزح
شفق، نجوم، خلا و سراب سے ظاہر
بہشت و دوزخ و قہر و جلال، حور و ملک
جزا، سزا و ثواب و عذاب سے ظاہر
منی و علقہ و مضغہ کی پرورش سے عیاں
ضعیفی، طفلی، و عہدِ شباب سے ظاہر
ہر ایک لفظ میں کونین جذب ہے جس کے
اُسی مقدس و اطہر کتاب سے ظاہر
یقین آئے نہ اِن پر تو ہوگا وہ ساحلؔ
بروزِ حشر حساب و کتاب سے ظاہر