ہم دیوانوں کی قسمت میں لکھے ہیں یاں قہر بہت
کوچہ کوچہ سنگ بہت اور زنداں زنداں زہر بہت
جب تک ہم مانوس نہیں تھے درد کی ماری دنیا سے
عارض عارض رنگ بہت تھے آنکھوں آنکھوں سحر بہت
ہم تو جہاں والوں کی خاطر جان سے گزرے جاتے ہیں
پھر ستم کیا ہے کہ ہمیں پر تنگ ہوا ہے دہر بہت
اپنے دیس کے لوگوں کا کچھ حال عجب ہی دیکھا ہے
سوئیں تو طوفان بھی کم اور جاگ اٹھیں تو لہر بہت
رات آئی تو گھر گھر وحشی سایوں کی تقسیم ہوئی
دن نکلا تو جبر کی دھوپ میں جلتا ہے یہ شہر بہت
ساری عمر تماشا ٹھہری ہجر و وصال کی راہوں کا
جس سے ہم نے پیار کیا وہ نکلا ہے بے مہر بہت