کچھ پتھروں کو قیمتی پتھر بنا دیا
قطرے کو تو نے سیپ میں گوہر بنا دیا
یہ بھی اصل میں تری تقدیر کا کمال
جس نے امیرِ شہر کو نوکر بنا دیا
دستِ دعا کو دیکھ کے جب مہرباں ہوا
بے انتہا غریب کو افسر بنا دیا
کل رو رہا تھا جو، ہے وہی آج شادماں
بدتر کو تو نے آن میں بہتر بنا دیا
علما بھی اس کی فکر گم ہوکے رہ گئے
کم علم کو اک ایسا سخنور بنا دیا
اس طرح سے بچا لیا اپنے خلیلؑ کو
نارِ غضب کو پھول کا بستر بنا دیا
جس کو بھی چاہا اس کو دیا عزت و شرف
اور جس کو چاہا اپنا پیمبر بنا دیا
خنجر کو شاخِ گل کی کبھی دی نزاکتیں
اور شاخِ گل کو وقت پہ خنجر بنا دیا
لذت نشاط کی ملی ہر حال میں اسے
ساحلؔ کا تو نے ایسا مقدر بنا دیا