صبرو تحمل اور برداشت کی اہمیت، تحریر : مہر اظہر حسین وینس

آج کل جس چیزکی سب سے زیادہ ضرورت ہے ،وہ ہے صبر،تحمل ،برداشت ۔صبرکے لغوی معنی ہیںروکنا،برداشت کرنا ، ثابت قدم رہنا یاباندھ دینا۔اوراس کامفہوم ہے کہ ناخوشگوارحالات میںاپنے نفس پرقابورکھنا ،پریشانی ،بیماری ،تکلیف اورصدمے کی حالت میںثابت قدمی اورہمت قائم رکھتے ہوئے اپنے مالک وخالق پرمکمل بھروسہ رکھنا ۔

اللہ تعالیٰ کاارشاد گرامی ہے ’’اللہ صابروںکو دوست رکھتاہے ‘‘۔اللہ تعالیٰ صبرکی فضیلت یوںبیان فرماتے ہیں’’یقینااللہ تعالیٰ صبرکرنے والوںکے ساتھ ہے ‘‘۔ دوسری جگہ ارشادباری تعالیٰ ہے ’’اورجومصیبت آپ کوپیش آئے ، اس پرصبرکرو،یہ بڑے عز م اورحوصلے کی بات ہے‘‘۔ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے پیغمبرﷺ سے فرمایا’’اور(اے رسول ؐ) صبرکیجئے جس طرح اولوالعزم رسولوںنے صبرکیا‘‘۔اسی طرح سورۃ النساء آیت نمبر200 میںاللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’اے ایما ن والو! خود بھی صبرکرو اور دوسروں کوبھی صبرکی تلقین کرو‘‘۔لوگوںنے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ایمان کیاچیز ہے؟ توآپ ﷺ نے فرمایاصبر۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے صبرکو ارکان ایمان میںسے ایک رکن قراردیااسے جہاد،عدل اوریقین کے ساتھ ملاتے ہوئے فرمایا:اسلام چار ستونوں پر مبنی ہے (۱)یقین (۲) صبر (۳)جہاد (۴) عدل ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’اللہ تعالیٰ کے بعض ایمان والے بندوں اور ایمان والی بندیوں پراللہ تعالیٰ کی طرف سے مصائب اورحوادث آتے رہتے ہیں ، کبھی اس کی جان پرکبھی اس کے مال پرکبھی اس کی اولاد پر (اوراس کے نتیجے میں اس کے گناہ جھڑتے رہتے ہیں)یہاںتک کہ مرنے کے بعد وہ اللہ کے حضو ر اس حال میں پہنچتا ہے کہ اس کاایک گناہ بھی باقی نہیںہوتا۔ ‘ ‘ (جامع ترمذی) بعض لوگ دنیا میں حد سے زیادہ دکھ ، تکلیف اور بیماری کا شکار بنتے ہیں۔ ان لوگوںکو اجراسی مقدار میںملے گا جس مقدار میں انہوںنے مصیبت اٹھائی ۔ سب سے زیادہ تکالیف اللہ کے پیغمبرو ں اور برگزیدہ ہستیوںنے برداشت کیں اور ان پر شکر اورصبرکیاجس طرح حضرت یعقوب علیہ السلام کو ان کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کی اندوہناک خبرسنائی گئی توانہوںنے صبرکیا۔ حضرت عائشہ ؓ کوایک سازش کے تحت بدنام کرنے کی کوشش کی گئی توآپؓ نے صبر کیا جس کو صبرجمیل کہا جاتاہے اسی طرح حضرت حارثؓ کوتپتے انگاروںپرلٹایا گیا ،حضر ت بلال ؓ کے گلے میں رسی ڈال کرگھسیٹاگیا۔حضرت صہیب رومیؓ کو ہجرت کے موقع پرمال ودولت سے ہاتھ دھونا پڑا، حضرت ابو سلمہ ؓ سے ان کے بیوی بچے چھین لیے گئے ،ام سلمہؓ سے بچے اور شوہرچھین لیاگیا ۔حضرت خبیب ؓ کوایمان لانے کی وجہ سے سولی پرلٹکا دیاگیا ان لوگوںنے دولت ایمان بچانے کے لیے اپنا سب کچھ لٹادیا ۔خداکی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مصائب اورمشکلات میںکسی قسم کا اضطراب ، بے زاری اوراللہ کی رحمت سے ناامیدی کا اظہارنہیںکیابلکہ صبرجمیل اختیارکرتے ہوئے اللہ کے حضور سرخروہوئے ۔ سب سے زیادہ تکالیف ہمارے پیارے آقاومولیٰ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھائی ہیں ۔دین حق کی تبلیغ کااعلان کیاتو کفارمکہ آپ ؐکے دشمن ہوگئے لیکن آپؐ نے ان کے ظلم وستم کوبرداشت کیااورصبرواستقلال کادامن نہ چھوڑا۔ابولہب آپ ﷺ کوبرابھلاکہتا۔اس کی بیوی ام جمیل آپ ؐکے راستے میںکانٹے بچھاتی اور کوڑا پھینکتی تب بھی آپؐ لوگوںکے حق میںدعائیں کرتے اور صبراختیار کرتے ۔

آپﷺ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمۃ الزہراؓ سے فرمایا،

’’بیٹی یہ لوگ نہیںجانتے کہ ان کی بہتری کس چیز میںہے ان کے لیے دعاکروکہ اللہ انہیںہدایت دے‘‘۔

آپ ؐ کاگلاگھونٹنے کی ناپاک جسارت بھی کی گئی ۔آپ ؐکاسوشل بائیکاٹ کیاگیا، شہید کرنے کی (نعوذ باللہ) ناپاک تدبیریں کی گئیں۔طائف میںآپﷺ پرسنگبار ی کرکے بدن مبارک کولہولہان کیاگیا ۔ غزوہ احدمیںآ پ ﷺ کے دندان مبارک شہیدکردیئے گئے لیکن آپ ؐنے ہرموقع پر صبرو استقلال سے ہرتکلیف کواپنے اللہ کی خوشنودی اورحق کی تبلیغ کے لیے برداشت کیا اورہروقت آپ ؐکی زبان سے دعائیہ کلمات ہی نکلے کہ ’’اے اللہ ان کوہدایت دے یہ مجھ کونہیںجانتے ‘‘۔ حضور پر نور رحمت عالم ﷺ کے اس صبر نے عرب کے لوگوںمیںانقلابی تبدیلی پیداکردی۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’دنیاوآخرت میںحقیقی کامیابی کی خوشخبری کے حق داروہی ہیںجوصبراختیار کرتے ہیں‘‘۔ صبرکا خاص انعام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میںصابرکوسب لوگوںکے سامنے خاص انعام سے نوازے گا۔صبرکے ثمرات یہ ہیںکہ اللہ تعالیٰ صبرکرنے والوںکاساتھ دیتاہے ،انہیںفتح وکامرانی نصیب ہوتی ہے ۔ایسے لوگوں کو آخرت میںاعلیٰ ترین گھرملنے ہیںجن میںان کے تما م نیک رشتہ داربھی ان کے ساتھ رہیںگے ۔ مسلمانوںکی اجتماعی زندگی میںبھی صبرکے مفیدنتائج سامنے آتے ہیں۔ قوموںپرجب کوئی مصیبت یا براوقت آجائے تواس کامقابلہ صرف ہمت اورصبرہی سے کیاجاسکتاہے ۔ان حالات میں افراتفری ،بدنظمی ، مایوسی اوربے عملی کامظاہرہ کیاجائے توقومیںتباہ ہوجاتی ہیں۔ہمیں چاہئے کہ اگر کوئی تکلیف یامصیبت آپڑے تواللہ کی رضا کی خاطر صبرواستقامت کا مظاہرہ کریںاوراللہ تعالیٰ کی عطاکردہ نعمتوںکا شکر ادا کریں۔ اسی میںہماری دین ودنیا دونوںکی کامیابی ہے ۔