نما ز کی برکات
تحریر : علامہ پروفیسر سید مظہر سعید کاظمی
صلوٰۃ اسلام کے بنیادی ارکان میں ایک اہم ترین رکن ہے۔ اس کے نتائج کیا ہیں؟یہ سوال تاریخ سے پوچھئے تو وہ جواب دے گی کہ یہ صلوٰۃ ہی تھی جس نے ریگزار عرب کے چرواہوں کو دنیا کا پاسبان بنا دیا تھا۔
صلوٰۃ ہی نے ان تہی دامن اور بے مایہ انسانوں کو یہ جرأت عطا کر دی تھی کہ انہوں نے قیصر و کسریٰ کے ایوانوں میں زلزلے بپا کر دئیے اور زمین کا بہت بڑا حصہ ان کے جلال و جبروت کی نمود کا مظہر بن گیا۔دیکھنا یہ ہے کہ صلوٰۃ کے لفظ میں وہ کون سا اعجاز پنہاں ہے جس نے تاریخ انسانیت میں حسین ترین انقلاب کے باب کا اضافہ کر دیا۔
حضور سرورِ کائنات ﷺ نے بھی نماز کی بہت تاکید فرمائی ہے۔ صحیحین میں ہے کہ آپ سے سوال کیا گیا ’’اَیُّٗ الْاَعْمَالِ اَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ‘‘ (اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کون سا ہے؟) آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا، ’’اَلصَّلٰوۃُ عَلٰی وَقْتِہَا‘‘ (اپنے وقت پر نماز ادا کرنا) مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا ’’بندئہ مسلم اور کافر کے درمیان نماز چھوڑ دینے کا فرق ہے‘‘۔
یعنی ترک ِ صلوٰۃ کفر کی علامت ہے۔ حضرت انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ حضورپاکﷺ نے ارشاد فرمایاترجمہ: ’’بندئہ مسلم اور مشرک میں صرف ترکِ صلوٰۃ کا فرق ہے‘‘۔ پس جب اس نے نماز چھوڑ دی تو شرک کیا۔حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا’’نماز دین کے لئے ستون کا درجہ رکھتی ہے اور اس کی ادائیگی سے دس برکات حاصل ہوتی ہیں۔
۱۔دنیا اور آخرت میں چہرہ منور رہتا ہے۔
۔۲۔قلبی و روحانی مسرّت حاصل ہوتی ہے۔
۔۳۔قبر منور ہوجاتی ہے۔
۔۴۔میزان عمل میں نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوتا ہے ۔
۔۵۔جسم امراض سے محفوظ رہتا ہے ۔
۔۶۔دل میں سوزوگداز پیدا ہوتا ہے ۔
۔۷۔بہشت میں حور وقصور ملتے ہیں ۔
۔۸۔دوزخ کی آگ اور روز محشر کی تمازت آفتاب سے نجات مل جاتی ہے ۔
۔۹۔خدا ئے قدوس کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے ۔
۔۱۰۔جنت میں خدا کے دیدار کی سعادت حاصل ہوجاتی ہے‘‘۔
حضرت عبداللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ ایک روز حضورپاک ﷺ نے نماز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’جو شخص نماز کی حفاظت کرے گا تو یہ اس کے لئے قیامت میں روشنی اور برہان بنے گی اور جو نماز کی محافظت نہیں کرے گا تو اس کے لئے روشنی، نجات اور برہان نہیں ہو گی اور وہ قیامت کے روز قارون، فرعون، ہامان اور ابی ابن خلف کی معیّت میں ہو گا۔‘‘
حضرت سیدنا حسن ؓ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا’’ نماز پڑھنے والے کے لئے تین سعادتیں مخصوص ہیں۔ اول یہ کہ اس کے پاؤں کے ناخنوں سے لے کر سر کی مانگ تک آسمان سے رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کے قدموں سے لے کر فضائے آسمانی تک فرشتے اس کی محافظت کرتے رہتے ہیں۔ تیسرے یہ کہ ایک فرشتہ آواز دیتا ہے کہ اگر اسے خدا کے ساتھ اپنا معاملہ معلوم ہو تو یہ نمازمیں اس قدر مستغرق ہو جائے کہ پھر اسے چھوڑ کر کسی اور جانب متوجہ ہی نہ ہو‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ نماز کی استواری سے ہی دین اور دنیا بدل سکتی ہے۔ جناب سرورِ عالم ﷺ نے جب دعوتِ حق و صداقت کا آغاز کیا اور آپ کا ساتھ دینے کے لئے چند پرستارانِ حق آگے بڑھے تو صورتِ حال یہ تھی کہ یہ لوگ ہرطرف سے اعدائے اسلام کے نرغہ میں محصور تھے۔ صرف مکّہ ہی نہیں پورا عرب ان کے خون کا پیاسا تھا۔ ان کا کوئی مددگار نہیں تھا۔ ہر طرف مایوسی کی تاریکیاں مسلّط تھیں۔ ان لوگوں کی لاچاری و درماندگی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ اس وقت رب ذو الجلال نے انہیں ان کے مرض کسمپرسی کا جو علاج بتایا وہ کیا تھا؟
یہی کہ ’’اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ‘‘ (نماز قائم کرو) ’’وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ‘‘ (نماز اور ثابت قدمی کے ذریعے خدا کی مدد طلب کرو) اور جب ان تقدس مآب انسانوں نے حکیم مطلق کے اس نسخہ پر عمل کیا تو اس کے نتائج یہی تھے کہ وہ دنیا پر چھا گئے۔طبِّی نقطہ ٔ نظر سے غور کیجئے تو بھی نماز کے بہت سے فوائد ہیں جو شخص بھی نماز ادا کرے، اسے نماز کی خاطر پاک و صاف رہنا پڑتا ہے۔ پانچوں وقت وضو کرتا ہے، لباس صاف رکھتا ہے، غلاظت کی چھینٹ تک سے بچتا ہے۔ جب خود صاف رہتا ہے تو اسے گھر، سامان، برتن غرضیکہ سب کچھ صاف رکھنا پڑتا ہے۔ اس طرح یقینا اس کی صحت اچھی رہتی ہے۔