بچوں میں سرطان
23481 51796899 - بچوں میں سرطان
محمد ریاض
بچوں میں سرطان کم کم ہوتا ہے تاہم اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا میں ہر برس تقریباً اڑھائی لاکھ بچوں میں سرطان کی تشخیص ہوتی ہے۔ بچپن کے سرطان کے 30 فیصد کیسوں میں سرطان کا سبب لیوکیمیا ہوتا ہے جس کی بنیادیں ہڈیوں کے گودے اور خون کے خلیوں میں ہوتی ہیں۔ دماغ اور حرام مغز میں رسولی بچوں میں سرطان کی دوسری بڑی قسم ہے۔ رسولیاں عام طور پر دماغ کے نچلے حصے میں پیدا ہوتی ہیں۔ بعض جینیاتی تغیرات سے ہونے والے پیدائشی نقائص، جیسا کہ ’’ڈاؤن سنڈروم‘‘ بچوں میں سرطان کے امکانات بڑھا دیتے ہیں۔ بچپن کے زیادہ تر سرطانوں کا سبب جینز میں ہونے والی بے ترتیب تبدیلیاں ہوتی ہیں اس لیے آغاز سے قبل انہیں روکنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ بچوں میں سرطان، بالخصوص رسولیوں کی نمو بالغوں سے مختلف ہوتی ہے۔ اس لیے تشخیص اور علاج میں بھی قدرے فرق ہوتا ہے۔ بچوں میں سرطان کی وجہ سے اموات میں گزشتہ 40 برس میں تقریباً 60 فیصد کمی ہوئی ہے۔ امیر ممالک میں 80 فیصد سے زائد بچے علاج سے صحت یاب ہو جاتے ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک میں یہ تناسب صرف 20 فیصد ہے۔ سرطان سے بچ جانے والے 60 فیصد بچوں کو بعدازاں ذیلی اثرات کا سامنا ہوتا ہے۔ ان میں بانجھ پن، دل کے مسائل اور سرطان کی کسی دوسری اقسام کا پیدا ہو جانا شامل ہیں۔ لڑکیوں کی نسبت لڑکوں کو سرطان زیادہ ہوتا ہے۔ 1980ء کے بعد بچوں میں سرطان کی شرح بڑھی ہے، اعدادوشمار میں اضافہ جلد تشخیص اور بہتر رپورٹنگ کے سبب بھی ہے۔ بچوں میں ’’کیمو‘‘ کا پہلا استعمال 1950ء کی دہائی میں ہوا۔ اس سے پہلے ماہرین طب کوشش کرتے تھے کہ بچوں کو موت کے منہ میں جاتے ہوئے کم سے کم تکلیف ہو۔ سرطان کے علاج میں ڈاکٹر سڈنی فاربر کو پہل کار کی حیثیت حاصل ہے۔ انہوں نے 1955ء میں بچوں کے سرطانوں پر تحقیق کا گروپ قائم کیا اور علاج کے طریقے تلاش کیے۔ 1970ء کی دہائی میں کیموتھراپی سرطان کے علاج کا سب سے مقبول طریقہ بن گیا۔ 1980ء کی دہائی میں ہڈی کے گودے کا ٹرانسپلانٹ بڑھ گیا جس سے بچوں میں سرطان کے علاج میں مدد ملی۔