امیر تیمور جنگِ انقرہ کیسے جیتا؟
جنگِ نکوپولس میں سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان بایزید اول نے صلیبی فوج کے خلاف شاندار فتح پائی لیکن اس کے تقریباً چھ برس بعد، 20 جولائی 1402ء کو، جنگِ انقرہ میں اسے امیر تیمور کے ہاتھوں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ امیر تیمور نے اپنے دور کی بہت بڑی طاقت کو بہتر حکمت عملی سے شکست دی۔ وہ کامیاب جنگجو، سپاہ سالار اور حملہ آور تھا۔ اس نے یکے بعد دیگرے کئی فتوحات حاصل کیں اور ایک وسیع سلطنت قائم کر لی۔ البتہ مقبوضہ علاقوں میں پائیدار ریاستی ڈھانچہ قائم کرنے میں ناکام رہا۔ غالباً اسی لیے جنگ کے صرف تین سال بعد، جب اس کا انتقال ہوا، تیموری سلطنت بکھرنے لگی اور جلد دنیا کے نقشے سے غائب ہو گئی۔ دوسری جانب سلطنتِ عثمانیہ نے اس دھچکے کے بعد خود کو سنبھال لیا اور آئندہ دو سے تین صدیوں تک ایک بڑی طاقت کے طور پر نمایاں رہی۔ امیر تیمور نے اس علاقے میں اپنی سلطنت کی بنیاد رکھی جہاں آج ازبکستان ہے۔ قوت پانے کے بعد مغرب اور شمال مغرب کی طرف فتوحات کرتی تیموری فوج بحیرہ کیسپین، دریائے ارل اور یورپ کے سب سے بڑے دریا ولگا تک جا پہنچی۔ جنوب اور جنوب مغرب میں یہ سلسلہ فارس سے شمالی عراق اور شام تک گیا۔ اس کی فوج کے قدم برصغیر تک بھی آئے۔ اس صورتِ حال میں پہلے سے موجود طاقت ور عثمانی اور ابھرتی تیموری سلطنت کے مابین کشیدگی اس نہج پر آن پہنچی کہ تصادم ناگزیر خیال کیا جانے لگا۔ امیر تیمور نے اپنے بڑے لشکر کے ساتھ اناطولیہ کا رخ کیا۔ تب وہ جنگوں اور مہمات میں تین دہائیوں سے زائد عرصہ بِتا چکا تھا۔ بایزید اول نے بازنطینی سلطنت کے دارالحکومت قسطنطنیہ کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ مشرقی اناطولیہ سے تیموری فوج رواں دواں ہے تو وہ محاصرہ چھوڑ کر موسمِ گرما میں اس کی جانب روانہ ہوا۔ تیموری فوج اندازاً ایک لاکھ 40 ہزار تھی جس میں زیادہ تر گھڑ سوار تھے۔ اس میں 32 جنگی ہاتھی بھی شامل تھے۔ بایزیداول کی فوج تقریباً85 ہزار پر مشتمل تھی۔ عثمانی لشکر میں دائیں جانب شہزادہ سلیمان کی سربراہی میں گھڑ سوار اناطولی ’’سپاہی‘‘ اور تاتاری تھے۔ وسط میں ینی چری اور اعلیٰ تربیت یافتہ سپاہی تھے جن کی قیادت بایزید اول اور اس کے بیٹے چلبی محمد کے ہاتھ میں تھی۔ بائیں جانب سربیائی حاکم سٹیفن لازارویک کی رہنمائی میں دستے صف بستہ تھے۔ میدانِ جنگ تک پہنچتے عثمانی فوج گرمی، پیاس اور تھکاوٹ سے نڈھال ہو چکی تھی۔ بایزید اول تیموری حملے سے تنگ آ چکا تھا اور مقابلے کی دھن سر پر سوار تھی، اس لیے اس نے افواج کوآرام کا وقت بھی نہ دیا۔ بایزیداول کو جرنیلوں نے صلاح دی کہ دفاعی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے گرم موسم اورجغرافیے کی جان کار کا فائدہ اٹھایا جائے۔ سلطان، جسے یلدرم (آسمانی بجلی) کا لقب ملا تھا،نے مشورہ رد کر دیا اور حملے کے لیے آگے بڑھا۔ دوسری طرف روایت کے برعکس امیر تیمور نے دفاعی حکمتِ عملی اپنائی۔ تلاش پر عثمانی سپاہ کو تیموری فوج نہ ملی۔ وہ خفیہ طور پر جنوب مشرق کی جانب چلی گئی اور آرام بھی کر لیا۔ وہ گھوم کر عثمانی سپاہ کے پیچھے آن کھڑی ہوئی۔ تیموری فوج عین اسی مقام پر براجمان ہو گئی جہاں پہلے عثمانی لشکر تھا۔ انہوں نے ترک کیے جانے والے خیموں اور پانی کے ذخیروں پر قبضہ کر لیا۔ تیموری فوج میں مرکزی حصے کی کمان تیمور کے ہاتھ میں تھی اور اس کے بیٹے میران اور شاہ رخ بالترتیب دائیں اور بائیں جانب کے دستوں کی کمان کر رہے تھے۔ اس کا بھتیجا ہراول دستے کی قیادت کر رہا تھا۔ عثمانیوں کی جانب سے جنگ کا آغاز بڑے حملے کی صورت میں ہوا۔ اس کا جواب گھوڑوں پر سوار تیراندازوں نے تیر کی بارش سے دیا۔ یہ غیر متوقع تھا۔ ہزاروں مارے گئے اور بہت سوں نے امیر تیمور کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ سربیائی دستوں نے ایسا بھاری لباس پہن رکھا تھا جو تیروں سے محفوظ رکھ سکتا تھا۔ وہ بایزید اول کے ایک بیٹے کو بچا کر قسطنطنیہ لے گئے۔ تیموری پانی کا رخ عثمانی فوج سے دور کر چکے تھے ، جس کی وجہ سے وہ پیاس سے نڈھال ہوئے جا رہی تھی۔ تھکی ہوئی اورپیاسی عثمانی فوج بالآخر بکھر گئی۔ اس میں ایک کردار ان تاتاری دستوں کا تھا جنہوں نے عین جنگ کے موقع پر وفاداری تبدیل کی۔ بایزید اول نے نزدیکی پہاڑوں میں پناہ لی۔ تاہم تیموریوں نے پیچھا کر کے اسے گرفتار کر لیا۔ کہا جاتا ہے کہ تیمور نے سلطان کو سونے کے پنجرے میں قید کیا اور کچھ عرصہ بعد وہ دوران قید جان کی بازی ہار گیا۔ وہ واحد عثمانی سلطان تھا جو دشمن کے ہاتھوں قید ہوا۔