مسلمانوں کا نظام تعلیم
خلیق احمد نظامی
مسلمانوں کے ہاں تعلیم میں مذہبی، سماجی اور اخلاقی طرزِ عمل کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ قرآن پاک اور حدیث اس تعلیم کی اساس ہیں۔ تعلیم میں ایک طرف ان کے مطالعے پر زور دیا گیا ہے اور دوسری طرف ان کی بنیاد پر دنیاوی مسائل کے حل کی کوشش کی گئی ہے۔ مسلمان حکمرانوں کے عہد میں انجینئرنگ، آب پاشی، فنِ تعمیر، برتن سازی، چمڑے، لوہے، کاغذ اور بارود سازی کی صنعتوں نے بہت ترقی کی۔ بعد کے دور میں تجارت اور جہاز رانی کو زبردست فروغ حاصل ہوا اور ان علوم کو تعلیمی نظام میں اہم مقام دیا گیا۔ ساری اسلامی دنیا میں ان علوم کی بڑی بڑی تعلیم گاہیں قائم کی گئیں۔ دنیاوی علوم کو حاصل کرنے اور انہیں ترقی دینے میں مسلمان علما نے بڑی اہم خدمات انجام دی ہیں۔ اسلام سے پہلے یونان، بازنطین، ایران اور ہندوستان میں مختلف علوم نے ترقی کی تھی۔ مسلمانوں نے علم کے اس سارے ذخیرے سے فائدہ اٹھایا۔ بنوامیہ کے حکمرانوں نے اپنے اقتدار کے ابتدائی دور ہی سے یونانی علم و ہنر کے مراکز کی سرپرستی کی، سکندریہ، بیروت، انطاکیہ وغیرہ کے تعلیمی اداروں کو نہ صرف باقی رکھا بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کی۔ عہد عباسیہ میں تو یونانی، ایرانی اور دوسرے قدیم علوم کو عربی زبان میں منتقل کرنے کی زبردست مہم چلائی گئی اور ارسطو، افلاطون، بطلیموس وغیرہ کی تصانیف کے ترجمے کیے گئے ۔ مشہور عالم، عرب ریاضی داں الخوارزمی (نویں صدی عیسوی) نے ریاضیاتی جدولیں مرتب کیں اور بہت ساری دوسری تصانیف کے علاوہ 29 کے قریب دانشوروں کے تعاون سے جغرافیہ کا انسائیکلو پیڈیا مرتب کیا۔ اس دور میں مسلمان عالموں نے نہ صرف دوسری زبان کے علوم کو عربی و فارسی میں منتقل کیا اور ان کا تنقیدی جائزہ لیا بلکہ ان میں اضافہ کیا اور انہیں آگے بڑھایا۔ اس دور میں اسلامی ملکوں میں مختلف قسم کے سکول قائم تھے۔ مثلاً حلقے، مکتب، مسجدوں کے سکول، مدرسے، شاہی علاقوں کے سکول، جامعات وغیرہ۔ تعلیمی اداروں کی سب سے ابتدائی شکل حلقہ تھی۔اس میں استاد کسی قدر اونچی جگہ بیٹھتا اور شاگرد اس کے سامنے ایک نیم دائرے کی شکل میں حلقہ بنا کر بیٹھتے۔ جو طالب علم جتنا زیادہ تعلیم یافتہ یا ذہین ہوتا وہ استاد کے اتنا ہی قریب بیٹھتا۔ اعلیٰ درجوں کے طالب علم اور بیرونی سکالر استاد کے پاس بیٹھتے۔ استادوں کی بڑی عزت کی جاتی اور انہیں علم کا خزانہ تصور کیا جاتا۔ وہ جو کچھ تعلیم دیتے طالب علم بہت احتیاط کے ساتھ اسے اپنی بیاضوں میں لکھ لیتے۔ استاد وقتاً فوقتاً اس کی جانچ کرتے اور اصلاح دیتے۔ طالب علموں کی ہمت افزائی کی جاتی تھی کہ وہ جو کچھ پڑھیں اس پر آپس میں بحث و مباحثہ کریں۔ اعلیٰ درجوں کے طالب علموں کو استادوں سے بحث کرنے اور بعض اوقات ان پر تنقید کی بھی اجازت تھی۔ تمام اسباق میں ایک باقاعدہ نظام برتا جاتا تھا۔ پہلے دن استاد مضمون کا مختصر سا خاکہ بیان کرتا اور اس کا بھی اشارہ کرتا کہ اگلا سبق کیا ہو گا۔ دوسرے دن کا سبق آموختہ سے شروع ہوتا اور اصل سبق کے بعد آئندہ سبق کا بھی مختصر ذکر کیا جاتا۔ ان حلقوں میں شرکت کے لیے طالب علم دور دور سے آتے تھے۔ مکتب جن میں بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھایا جاتا تھا، اسلام سے پہلے بھی رائج تھے، اسلام کے ظہور کے بعد ان میں سے بہت سے اسلامی تعلیم کے مراکز بن گئے۔ بعض مکتبوں کے نصاب میں شاعری، ابتدائی حساب، انشا، اخلاقیات، ابتدائی قواعد، گھڑ سواری، تیراکی وغیرہ کے سبق بھی شامل کیے جاتے تھے۔ اس دور میں مشرق قریب، افریقہ، سپین، صقلیہ (سسلی) وغیرہ کے مسلم علاقوں کے تقریباً تمام شہروں اور دیہات میں یہ مکتب قائم تھے۔ درس گاہوں کی تیسری قسم مسجدوں کے مکتب تھے۔ یہ انتہائی اولین دور میں قائم ہوئے اور کئی ملکوں میں آج تک قائم ہیں۔ مسلمان حکمرانوں نے بہت سی مساجد تعمیر کرائیں۔ کہا جاتا ہے کہ عباسی حکمرانوں کے زمانے میں صرف بغداد میں تین ہزار مسجدیں تھیں۔ چودھویں صدی میں سکندریہ میں 12 ہزار مسجدیں تھیں اور ان میں سے اکثر مکتب بھی تھیں۔ بعض مسجدیں مثلاً ہارون الرشید کی بنوائی ہوئی بغداد کی مسجد المنصور اور اصفہان، مشہد، دمشق، قاہرہ اور الحمرا کی مسجدیں تعلیم کا مرکز بن گئیں۔ انہیں ساری دنیا میں شہرت حاصل تھی اور دنیا کے کونے کونے سے طالب علم وہاں آتے تھے۔ قاہرہ کی جامعہ ازہر آج بھی بین الاقوامی شہرت رکھتی ہے۔ ان کے علاوہ شاہی علاقوں میں خاص قسم کے سکول ہوتے تھے جن میں نہ صرف مکتبوں کا نصاب پڑھایا جاتا بلکہ سماجی علوم کی بھی تعلیم دی جاتی۔ یہاں کے نصاب میں تاریخ روایات، اخلاقیات اور فن تقریر بھی شامل تھا۔ عباسی دور میں مشرق قریب میں اور عہد بنوامیہ میں مغرب میں علوم اور فنون کو فروغ دینے میں کتب خانوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔ حکومت کی مدد سے بڑے پیمانے پر کتابوں کی دکانیں قائم کی گئیں جہاں اہل علم اور طالب علم اپنا کافی وقت بسر کرتے۔ وہ کتابیں پڑھتے اور خریدتے اور اپنی خانگی لائبریریاں قائم کرتے تھے۔ بو علی سینا، امام غزالی اور فارابی وغیرہ کے ذاتی کتب خانے بڑی شہرت رکھتے تھے۔ ان سے سیکڑوں اہل علم نے استفادہ کیا اورعلم کے فروغ میں انہوں نے بہت بڑا کردار ادا کیا۔ مسلمانوں کے تعلیمی نظام میں حلقوں، مکتبوں اور شاہی علاقوں کے مکتبوں کو بنیادی حیثیت حاصل تھی لیکن جیسے جیسے اسلامی سلطنتیں وسیع ہونے لگیں، علوم و فنون بڑھنے لگے۔ اب ان اداروں کے تعلیم یافتہ استاد نئے دور کے تعلیمی تقاضے پورے نہیں کر سکتے تھے۔ چنانچہ ایک نئے قسم کا سکول ’’مدرسہ‘‘ قائم ہونے لگا جس میں مذہبی اور سماجی علوم میں زیادہ ہم آہنگی تھی اور جس سے بڑھتی ہوئی تعلیمی ضروریات پوری ہو سکتی تھیں۔ اس قسم کے مدرسے بارہویں صدی تک تقریباً تمام مسلم ملکوں میں قائم ہو چکے تھے۔ اسلامی دور کا تعلیم کے میدان میں ایک بہت اہم کارنامہ جامعات یا تحقیقاتی مرکزوں کا قیام تھا۔ عباسی دور کی جامعات نظامیہ اور مستنصریہ نے جو بغداد میں قائم تھیں اور سپین کے شہروں میں بنوامیہ کے حکمرانوں کی قائم کی ہوئی قرطبہ، غرناطہ، الحمرا وغیرہ کی جامعات نے علم و دانش کے میدان میں نقش دوام چھوڑے ہیں۔ ان جامعات کے نصاب میں دنیا کے تقریباً تمام علوم شامل تھے اور کیمیا، طبیعات، ریاضی، علم ہیئت، طب، منطق، فلسفہ، ادب، سیاست، مذہب، فقہ اور ان تمام علوم کی بے شمار شاخوں میں تحقیق اور تعلیم کا انتظام تھا۔ ان تعلیمی مرکزوں نے دنیا کے علمی خزانے میں بے شمار جوہروں کا اضافہ کیا اور طالبانِ علم کو نئے علوم سے روشناس کرایا۔ ان مرکزوں میں مسلم عالموں نے سورج کے مدار کی پیمائش کی۔ زمین کا حجم معلوم کیا۔ پنڈولم کی گھڑی ایجاد کی۔ طبیعات میں روشنی کا انتشار اور زمین کی کشش ثقل کے متعلق اہم معلومات حاصل کیں۔ جغرافیہ کی تعلیم میں کرہ کا استعمال شروع کیا اور سیاروں کے مطالعہ کے لیے رصد گاہیں تعمیر کیں۔ صحت اور طبی علاج میں غیر معمولی ترقی کی۔ جراحی کے آلات بنائے، مویشیوں کی افزائش کے نئے سائنسی طریقے معلوم کیے۔ زراعت اور آبپاشی کو نئی جہتیں دیں۔ نئے نئے درخت اور پودے نباتاتی علم کی بدولت پیدا کیے۔ کیمیا میں مسلم سائنس دانوں نے پوٹاس، سلورنائٹریٹ ایسڈ، سلفیورک ایسڈ جیسی چیزیں دریافت کیں۔ انہوں نے کپڑے، برتن بنانے اور دھات کاری کی صنعتوں کو بلندی پر پہنچا دیا۔