صلح حدیبیہ حکمت ودانش کی ایک تاریخی دستاویز ۔
تحریر : ڈاکٹر محمد طاہر القادری
یہ ہجرت کا چھٹا سال تھا، مکہ سے نکلے ہوئے حضور نبی اکرمﷺ کوپانچ سال گزر چکے تھے۔ ابتلاو آزمائش کے پانچ سال، غزوہ بدر سے غزوہ خندق تک اور پھر غزوہ بنو قریظہ تک عسکری مہمات کاایک صبر آزما دور اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا۔
حضورپاک ﷺ نے دائمی اور حقیقی مفادات کو ترجیح دے کر امنِ عالم کے لیے وہ فضا تیار کی جسے اگر انسان اپنالے تو دنیا بھر میں امن وعافیت کے چراغ روشن ہوسکتے ہیں
مسلمانوں کو نہ حج کی اجازت تھی اور نہ وہ عمرہ کی ادائیگی کا فریضہ ادا کرسکتے تھے۔ دنیا بھر کے لوگ ہر سال حج اور عمرہ ادا کرتے، سنتِ ابراہیمی پرعمل کرتے لیکن مسلمانوں کو اللہ کے گھر کا طواف کرنے سے محروم رکھا جا رہا تھا۔ بدر، اُحد اور احزاب کی جنگوں میں مشرکینِ مکہ کی عسکری اورسیاسی قوت کازور ٹوٹ چکا تھا اور مسلماناب اس پوزیشن میں آچکے تھے کہ وہ حج اور عمرہ کی ادائیگی کا حق بزور بازو بھی حاصل کرسکیں۔
چنانچہ یکم ذیعقد ۶ھ کو تاجدارِ مدینہ ﷺ نے عمرہ کی ادائیگی کا قصد فرمایا۔ حضورپاکﷺ نے اپنے جاں نثار صحابہؓ کو اپنے ایک خواب کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا کہ مسلمان پرامن طور پر مکہ میں داخل ہورہے ہیں۔ اس موقع پر اگرچہ آپﷺ نے مدت کا تعین نہیں فرمایا تھا لیکن صحابہ کرامؓ نے یہی سمجھا کہ اسی سال مکہ میں داخلہ ہوگا۔ حجر اسود کو بوسہ دینے اور کعبہ کا طواف کرنے کی آرزو نے جذبوں کو مہمیز عطا کی اور وہ عمرہ کی ادائیگی کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔مدینہ منورہ پر بیرونی حملہ کا خطرہ کم ہوچلا تھا کیونکہ شہرِ نبیؐ کے قرب وجوار سے فتنہ پروریہودیوں کی جلاوطنی اور بنو قریظہ کے انجام نے یہودیوں کے دلوں میں مسلمانوں کارعب پیدا کردیا تھا اور وہ ذہنی طور پر مدینہ پر حملہ کرنے کی پوزیشن میں نہ رہے تھے اور نہ وہ فوری طور پر کھلے میدان میں یا قلعہ بندہوکر ہی مسلمانوں سے پنجہ آزمائی کرنے کا سوچ سکتے تھے۔ اس لئے اس طرف سے کسی حملے کاکوئی خطرہ نہ تھا اور عرب کے دیگر جنگجو قبائل بھی غزوۂ احزاب میں طویل محاصرے کے بعدناکام ہوکر لوٹ چکے تھے، ان کی طرف سے بھی کسی فوری ردعمل کے اظہار کا امکان نہ تھا۔ اس لئے حضور پاکﷺ نے اس وقت کو مناسب سمجھا اور عمرہ کی ادائیگی کااعلان فرمادیا۔
جب حضورپاک ﷺ اپنے جانثار صحابہؓ کے ساتھ مدینہ منورہ سے عمرہ کی غرض سے روانہ ہوئے تو آپ ﷺ کو شدت سے احساس تھا کہ قریش ان کی راہ کی دیوار بنیں گے اور مسلمانوں سے الجھنے کی کوشش کریں گے، حالانکہ حج وعمرہ کی ادائیگی عرب کے دستور کے مطابق مسلمانوں کا قانونی حق تھا لیکن قریش کی آنکھوں پر تعصب کی پٹی بندھی ہوئی تھی اور وہ مسلمانوں کو عمرہ کی ادائیگی کی اجازت دے کر اپنی جھوٹی اناکی دیوار کومسمار نہیں کرنا چاہتے تھے۔
اس وقت قریش سے الجھنا حکمت ودانش کے خلاف تھا۔ آپﷺ نے حدیبیہ کے مقام پر پڑائو ڈالا اور خراش بن امیہ الخزاعی کو اپنا سفیر بنا کر قریش کی جانب بھیجا کہ ہم جنگ کرنے نہیں بلکہ عمرہ کی نیت سے آئے ہیں اور عمرہ اداکرنے کے بعد واپس مدینہ لوٹ جائیں گے لیکن مشرکینِ مکہ نے ان پر حملہ کردیا اور اس بات کی بھی پرواہ نہ کی کہ خراش بن امیہ الخزاعی فریقِ مخالف کے سفیر ہیں، اور سفیر کو قتل کرنا زمانہ جاہلیت میں بھی معیوب سمجھا جاتا تھا، اس موقع پر کچھ لوگ آڑے آئے اور سفیرِ پیغمبرؐ کو حملہ آوروں سے بچالیا، آپؓ واپس آئے اور سارے حالات سے حضورپاک ﷺ کو آگاہ کیا۔
قریش میںبھی چند ایک لوگ ایسے ضرور تھے جو اپنی تمام تراسلام دشمنی کے باوجود یہ خیال کرتے تھے کہ مسلمانوں کو عمرہ کی ادائیگی سے نہ روکا جائے، لیکن قریش کے نوجوان اس موقع سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو نیست ونابود کردینا چاہتے تھے۔ دونوں اطراف سے سفارتی محاذ پر سرگرمیاں جاری تھیں۔ بدیل بن ورقا، عروہ بن مسعود ثقفی، مکرزبن حفص اور حلیس بن علقمہ یکے بعد دیگرے قریش کے سفیر بن کر آئے۔ ان سفراء نے قریش کو مسلمانوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے کی تجویز دی مگر قریش نے ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان سفراء کی باتوں کو ماننے سے انکار کر دیا۔گومگو اور تذبذب کی اس فضا میں حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت عمر فاروق ؓ کو قریش کے پاس اپنا سفیر بنا کر بھیجنا چاہا لیکن انہوں نے معذرت کرلی کہ یارسولؐ اللہ! مجھ کو قریش سے اپنی جان کا خوف ہے کیونکہ وہ میری ان سے عداوت کے حال سے واقف ہیں کہ میں جس قدر ان پر سختی کرتا ہوں اور میری قوم بنی عدی بن کعب میں سے بھی کوئی مکہ میں نہیں ہے جو مجھ کو بچالے گا۔ میں آپﷺ کو ایک ایسا شخص بتاتا ہوں جو قریش کے نزدیک مجھ سے زیادہ بہتر اور عزیز تر ہے یعنی عثمانؓ بن عفان‘‘۔
حضورپاکؐ نے حضرت عمر ؓ کا عذر قبول فرماتے ہوئے حضرت عثمان غنی ؓ کو نامزد فرمایا کیونکہ قریش میں ان کا قبیلہ زیادہ قوی تھا۔ حضرت عثمان غنی ؓ سفیرِ مصطفی ؐبن کر عازمِ مکہ ہوئے۔ راستے میں کفار کی ایک گشتی پارٹی سے آمنا سامنا ہوگیا۔ وہ حضرت عثمان غنی ؓ پر حملہ کرنے ہی والے تھے کہ آپ کے ایک چچا زاد نے آپؓ کو دیکھ لیا اور حضرت عثمانِ غنی کو اپنی پناہ میں لینے کا اعلان کردیا۔ اس پر حملہ آوروں نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ حضرت عثمان ؓ نے قریش کے زعماء تک حضورپاک ﷺ کا پیغام پہنچایا کہ تم دیگر مشرکین اور مسلمانوں کے مقابلے میں غیر جانبدار ہو جائو۔ اگر دیگر لوگ غالب آگئے تو تمہارا مقصد پورا ہوجائے گا اور اگر حضور ﷺ کامیاب ہوگئے تو تمہیں اسلام قبول کرنے کا پورا اختیار ہوگا۔ چاہو تو میدانِ جنگ میں بھی اتر سکتے ہو، بہر حال ہم اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔ آپؓ نے مزید فرمایا کہ حضور ﷺ جنگ کی نیت سے نہیں بلکہ عمرہ اداکرنے آئے ہیں۔ روایات میں ہے کہ حضرت عثمان غنی ؓ وادی بلدح سے اپنے چچا زاد کے ساتھ مکہ پہنچے اور ان زعماء تک بھی پیغام پہنچایا جو وادی بلدح میں نہیں تھے۔ ابوسفیان اور صفوان نے امن اور صلح کی اس پیش کش کو بھی ٹھکرادیا۔حضرت عمر فاروق ؓ نے جس خدشے کا اظہار کیا تھا وہ بالکل درست تھا، حضرت عثمان غنی ؓ بنو امیہ کی پناہ میں تھے، اس لئے مشرکینِ مکہ کو آپ کی راہ میں مزاحم ہونے کی جرأت نہ ہوئی، نہ صرف یہ کہ انہوں نے آپؓؓ سے کوئی تعرض نہ کیا بلکہ آپؓ کو طواف کعبہ کرنے کی پیشکش بھی کردی کہ
’’اگر آپؓ بیت اللہ کا طواف کرنا چاہتے ہیں تو کرلیں‘‘۔
لیکن عثمان ؓ کی غیرتِ ایمانی نے گوارانہ کیا کہ اپنے آقا ﷺ کے بغیر طوافِ کعبہ کی سعادت حاصل کریں، آپ ؓنے فرمایا:
’’خد اکی قسم! میں اسوقت تک طواف نہیں کروں گا، جب تک ہمارے آقاﷺ طواف نہ کر لیں‘‘۔
جنگی جنون میں مبتلا قریش جنہوں نے امن اور صلح کی ہر پیش کش کو ٹھکرادیا تھا، لیکن کسی قسم کی جنگی تیاریوں کے بغیر بھی مسلمانوں کے جرأت، ہمت اور حوصلہ نے انہیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔ انہیں مسلمانوں کی قوتِ ایمانی کا اندازہ ہوا، انہیں بدر، اُحد اور خندق کے واقعات یاد آنے لگے کہ کس طرح مسلمان نامساعد حالات میں بھی ثابت قدم رہے اور غزوہ اُحد میں عارضی شکست کے باوجود سنبھل گئے حتیٰ کہ ہمارے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے، سازشی یہودیوں کا انجام بھی ان کے سامنے تھا۔ خوف کی ایک لہر ان کے لہو میں گردش کرنے لگی تو چہروں کی برف پگھلی، انہیں خوف تھا کہ اگر اب جنگ ہوئی اور ہمیںشکست کا سامنا کرنا پڑا تو ہم کہیں کے نہ رہیں گے اور ہماری رہی سہی ساکھ بھی خاک میں مل کائے گی۔ لہٰذا قریش کے عمائدین نے سہیل بن عمرو کی سرکردگی میں ایک وفد تشکیل دیا۔ رسی جل جاتی ہے لیکن بل نہیں جاتا کے مصداق، وفد کے سربراہ کو ہدایت کی گئی کہ
’’تو جاکر محمدﷺ سے اس بات پر صلح کر کہ اس سال وہ واپس چلے جائیں ورنہ تمام عرب یہ کہیں گے کہ محمدﷺ نے زبردستی عمرہ کرلیا اور قریش کچھ نہ کرسکے اور اس میں ہماری بڑی بدنامی ہوگی‘‘۔
سہیل بن عمرو کو عرب میں فصاحت وبلاغت کا بادشاہ متصور کیا جاتاتھا، اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک کامیاب سفارت کار بھی تھا۔ دوراندیش اور انتہائی ہوشیار انسان، قریش نے اس کی انہی صلاحیتوں پر اعتماد کرتے ہوئے اسے اپنے نمائندے کے طور پر حضور ﷺ کی بارگاہ میں بھیجا۔
مذاکرات کا آغاز
ادھر مسلمان بے سروسامانی کے عالم میں قریش سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے ذہنی اورعملی طور پر تیار تھے، ادھر قریش کی طرف سے ان کا ایلچی مذاکرات کے لیے آرہا تھا۔ بیعتِ رضوان اور اعلانِ جنگ کے بعد قریش کا صلح کے لیے وفد بھیجنا دراصل مسلمانوں کی ایک عظیم فتح تھی۔ دشمن نفسیاتی جنگ ہارچکا تھا۔مذاکرات خوشگوار فضا میں شروع ہوئے۔ مسلمان تو پہلے ہی جنگ نہیں کرنا چاہتے تھے، وہ تو عمرہ کی ادائیگی کے لیے اتنی طویل مسافت طے کر کے مکہ کے قرب وجوار میں پڑائو ڈالے ہوئے تھے۔ وفد کے سربراہ نے قریش کی زیادیتوں کی بھی معافی طلب کی، خیر سگالی کے طور پرمسلمانوں نے بھی شب خون مارنے والے جن حملہ آوروں کو گرفتار کیا تھا، انہیں رہا کردیا۔ اس طرح مذاکرات کے پہلے مرحلے پر فریقین نے اپنے اپنے نقطہ نظر سے کامیابی حاصل کی۔ اب مذاکرات کی کامیابی یقینی نظر آرہی تھی۔
فریقین کے درمیان صلح کی شرائط کو حتمی شکل دینے کا مرحلہ کوئی آسان مرحلہ نہ تھا۔ قدرتی بات ہے کہ ہر فریق اپنے مفاد کو پیش نظر رکھتا ہے لیکن چشمِ فلک نے دیکھا کہ وقتی اور ہنگامی مفادات پر حضورپاک ﷺ نے دائمی اور حقیقی مفادات کو ترجیح دے کر امنِ عالم کے لیے وہ فضا تیار کی جسے اگر انسان مفادات کی آلودگی سے بچا لے تو آج بھی اس کے حال کے اندھیروں اور مستقبل کے دھندلکوں میں امن وعافیت کے چراغ روشن ہوسکتے ہیں اور وہ شاہراہِ امن پر ابنِ آدم ؑکی فلاح وبہود کے لیے کارہائے نمایاں سرنجام دے سکتا ہے۔
مذاکرات کے دوران فریقین میں صلح کی شرائط کے بارے میں کافی بحث وتمحیص ہوئی، ایسے نازک مقامات بھی آئے جب وفد کے اراکین غصے میں آجاتے ، طرح طرح کی آوازیں بلند کرتے اور ناراضی کا اظہا کرتے۔ اس پر آپ ﷺ کے محافظ ان کی طرف خشمگیں نگاہوں سے دیکھتے کہ وہ حدِ ادب سے بڑھنے کی جسارت نہ کریں۔ بہر حال فریقین کے درمیان بعض امو رپر اتفاق رائے ہوگیا کیونکہ حضور ﷺ جنگ کے بغیر مکہ میں داخلہ کے خواہشمند تھے، اس لئے آپ ﷺنے مشرکین کی بعض ایسی شرائط بھی قبول کر لیں جو بظاہر مسلمانوں کے حق میں نہیں تھیں یاجن کے تسلیم کئے جانے سے مسلمانوں کی کمزوری کا اظہار ہوتاتھا۔ یہ بات حضور ﷺ کے جاں نثاروں کو کسی حدتک ناگوار بھی گزری لیکن بارگاہِ نبویؐ میں کسی کو دم مارنے کی مجال نہ تھی، سب احتراماً خاموش کھڑے رہے۔اس معاہدے کی کتابت کے آغاز سے ہی فریقین میں اختلاف ظاہر ہونے لگا مگر آپﷺ ہر مرحلہ پر کمال وسعتِ ظرف اور صبرو تحمل کا اظہار فرماتے رہے۔
سہیل بن عمرو نے بسم اللہ الرحمن الرحیم سے صلح کی دستاویز کا آغاز کرنے پر اعتراض کیا کہ
میں رحمن کو نہیں جانتا، اس کی جگہ باسمک اللہم لکھیں۔
مسلمان تحریر کاآغاز بسم اللہ سے ہی کرنا چاہتے تھے۔ بہرحال حضورپاک ﷺ نے سہیل بن عمرو کی یہ تجویز منظور کر لی کہ حرفِ آغاز میں باسمک اللھم کے الفاظ ہی لکھے جائیں۔ حضرت علیؓ معاہدہ کی دستاویز کو تحریر میں لارہے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: لکھو۔
اس معاہدہ پر محمد رسول اللہ نے سہیل بن عمر سے صلح کی۔
سہیل اس پر بھی معترض ہوا کہ ،
’’میں آپ کو اللہ کا رسول تسلیم کر لوں تو پھرجھگڑا کس بات کا ہے، ہم آپ ﷺکو مکہ میں داخل ہونے سے کیوں روکتے؟ اس لئے آپ ﷺ اپنے اور اپنے والد کے نام سے معاہدہ لکھوائیں۔ اس پر سرداران اوس اور خزرج احتجاجاًاٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے کہا: یہ نہیں ہوسکتا، اب ہمارے درمیان تلوار ہی فیصلہ کرے گی۔ حضورپاکﷺنے اس نازک موقع پرکمال ضبط وتحمل کا مظاہرہ کیا۔ فضا کو مکدر ہونے سے بچالیا اور حضرت علیؓسے فرمایا:رسول اللہ کے الفاظ قلم زد کردو۔ لیکن ان کی غیرت ایمانی نے گوارانہ کیا کہ وہ اپنے آقاﷺ کے اسم گرامی پرقلم پھیریں۔ انہوں نے عرض کیا:
’’اللہ کی قسم! میں اِن الفاظ کو کبھی بھی قلم زد نہیں کروں گا‘‘۔
اس جواب پر حضورپاک ﷺ نے خود یہ الفاظ کاٹ دئیے۔ سہیل کا یہ مطالبہ بھی منظور کرلیاگیا اور یوں حدیبیہ کے صلح نامہ کی تحریر درج ذیل شرائط کے ساتھ مکمل ہوئی اور جس پر فریقین کے دستخط ہوئے۔
حدیبیہ کی تاریخی دستاویز
با سمک اللہم، یہ وہ امر ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے سہیل بن عمرو سے صلح کی، ان دونوں نے اس بات پر صلح کی کہ دس سال تک جنگ نہیں کی جائے گی، اس عرصے کے دوران امن وامان سے رہیں گے اور ایک دوسرے کو گزند پہنچانے سے باز رہیں گے، جوشخص ولی کی اجازت کے بغیر محمد (ﷺ ) کے پاس آئے گا، وہ اُسے لوٹانے کے پابند ہوں گے اور جو اصحابِ محمد (ﷺ) سے قریش کے پاس آئے گا وہ اسے واپس نہیں کریں گے۔ نہ خفیہ چوری کریں گے، نہ خیانت کریں گے اور نہ عداوت کا اظہار کریں گے۔ جو محمد ﷺ کے ساتھ معاہدے میں شامل ہونا چاہتا ہے، ان کے ساتھ شامل ہوجائے اور جو قریش کے ساتھ شامل ہونا چاہتا ہے، ان کے ساتھ شامل ہوجائے۔ اس سال آپؐ (محمدﷺ) اپنے اصحابؓ کے ساتھ واپس چلے جائیں گے اور اگلے سال ہمارے پاس آئیں گے اور صرف تین دن قیام کر سکیں گے اور تلواروں کو نیام میں رکھیں گے۔
حدیبیہ سے واپسی
قربانی کا فریضہ اد اکرنے کے بعد 10دن سے زائد اور ایک روایت کے مطابق بیس دن حدیبیہ گزارنے کے بعد واپسی کی تیاریاں شروع ہوگئیں اور وہی راستہ اختیار کیاگیا جس راستے سے گزر کر یہ قافلہ اہلِ وفاحدیبیہ میں اتراتھا۔ صحابہؓ نے حضور ﷺ سے اپنے اونٹ ذبح کرنے کی اجازت طلب کی جوا نہیں دے دی گئی۔سامانِ رسدختم ہوگیا۔ نوبت فاقوں تک آگئی، اگر مسلمان چاہتے تو آس پاس کی آبادیوں پر دھاوا بول دیتے اور رشتہ جاں برقرار رکھنے کے لیے اناج حاصل کرلیتے، عرب کے عام رواج اور دستور کے مطابق یہ فعل اتنا بھی معیوب نہ ہوتا، آج کے نام نہاد مہذب دور میں بھی ان باتوں کی پروا نہیںکی جاتی اور فاتحین مفتوحین کی ہرچیز کو اپنے تصرف میں لانا اپنا قانونی حق سمجھتے ہیں، بستیوں کو تاراج کرتے ہیں، املاک کو نذرِ آتش کرتے ہیں، لیکن حضور ﷺ پوری دنیا کواخلاق سکھانے آئے تھے، ان کے سچے پیروکار بھلا ان غیر اخلاقی اور غیر انسان کاموں میں کیسے شریک ہوتے۔ حضورپاک ﷺ کے ہمسفروں نے کسی کے مال کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ اسلام پرقتل وغار تگری اور لوٹ مار کاالزام لگانے والے ذرا حدیبیہ سے مدینہ مسلمانوں کی واپسی کے احوال پر بھی نظر ڈالیں کہ اپنے عمل سے صحابہؓ نے کس طرح عظمتِ کردار کی ہربلندی کو چھولیا ۔
حضورپاکﷺ نے واقعات کی تمام کڑیوں پر نظر رکھی اور بروقت فیصلے کرکے فروغ اسلام کے لیے راہ ہموار کی۔ وقتی اور ہنگامی نہیں پائیدار اور طویل المیعاد فوائد حضورﷺ کے پیش نظر تھے۔ عارضی فوائد حاصل کرنے کے لیے وسیع تر قومی مفاد کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔ آپﷺ نے صلح کی ایسی شرائط بھی قبول کرلیں جو بظاہر مسلمانوں کی کمزوری پر دلالت کرتی تھیں اور صحابہؓ نے جنہیں اپنی توہین پر محمول کیا تھا لیکن نگاہ نبوت مستقبل کے دریچوں میں اسلامی سلطنت کے پھیلائو کو دیکھ رہی تھی۔