جنگ میں سوپ,کیتلی اور شترمرغ کا انوکھا کردار
23522 23475294 - جنگ میں سوپ,کیتلی اور شترمرغ کا انوکھا کردار
رضوان عطا
جنگوں میں جان اور مال کا نقصان عموماً زیادہ اورکبھی کبھار Ú©Ù… ہوتا ہے۔ جنگوں میں ایسے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں جو ان Ú©Û’ ’’مزاج‘‘ Ú©Û’ برخلاف، انوکھے اور مضØ+کہ خیز ہوں۔ ان میں سے تین Ú©Ùˆ ذیل میں بیان کیا جا رہا ہے۔ سوپ پر صلØ+: عہدِ وسطیٰ Ú©Û’ یورپ میں اصلاØ+ِ مذہب Ú©ÛŒ تØ+ریک Ú©Û’ ساتھ پروٹسٹنٹس اور کیتھولکس Ú©Û’ درمیان فرقہ وارانہ تنازعات بڑھ گئے۔ نتیجتاًلڑائیاں ممالک Ú©Û’ مابین بھی ہوئیں اور ان Ú©Û’ اندر بھی۔ دورِ Ø+اضر میں امن پسند شمار ہونے والا یورپی ملک سوئٹزرلینڈ بھی اس مسئلے Ú©ÛŒ لپیٹ میں رہا۔ سولہویں صدی Ú©Û’ اوائل میں ملک Ú©Û’ دو دھڑے جنگ پر تُلے ہوئے تھے، دوسری طرف تنازعے Ú©Û’ پُرامن Ø+Ù„ کرنے Ú©Û’ لیے قیادت مذاکرات کر رہی تھی البتہ دکھائی یہ دے رہا تھا کہ مذاکرات ناکام ہوں Ú¯Û’ اور ہولناک جنگ شروع ہو جائے گی۔اس دوران وہ ہوا جس Ú©Û’ بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ دونوں دھڑوں Ú©Û’ سپاہی سوپ Ú©Û’ پیالوں پر اکٹھے ہو گئے۔ اس تنازعے کا پسِ منظر Ú©Ú†Ú¾ یوں ہے کہ سولہویں صدی Ú©Û’ اوائل میں سوئٹزرلینڈ میں اصلاØ+ِ مذہب Ú©ÛŒ تØ+ریک پھیل Ú†Ú©ÛŒ تھی۔ شمال میں زیورخ Ú©Û’ علاقے میں پروٹسٹنٹ Ø+اوی تھے جن Ú©ÛŒ قیادت مارٹن لوتھر Ú©ÛŒ طرØ+ کا مصلØ+ الرک زونگلی کر رہا تھا۔ جنوب میں زُگ Ú©Û’ علاقے پر کیتھولک غالب تھے۔ دونوں Ú©Û’ درمیان بداعتمادی بہت بڑھ Ú†Ú©ÛŒ تھی اور 1529Ø¡ Ú©Û’ گرما میں دونوں علاقوں Ú©Û’ درمیان سفارت کاری Ú©Ù… Ùˆ بیش ناکام ہو Ú†Ú©ÛŒ تھی۔ زیورخ Ú©Û’ سپاہیوں Ù†Û’ اسلØ+ہ اٹھایا اور جنوب Ú©ÛŒ طرف Ú†Ù„ دیے۔ اس دوران اگرچہ مذاکرات کا عمل پوری طرØ+ ختم نہیں ہوا لیکن جنگ Ú©Û’ رکنے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا تھا۔ زیورخ میں بریڈ اور نمک Ú©ÛŒ فراوانی ہوا کرتی تھی جبکہ زُگ میں فارمز سے دودھ Ú©ÛŒ پیداوار خاصی زیادہ تھی۔ ان دو عوامل Ù†Û’ ایک نئی کہانی Ú©Ùˆ جنم دیا۔ سپاہی Ú†Ù„ Ú†Ù„ کر بے Ø+ال ہو Ú†Ú©Û’ تھے اور ان پر بھوک غالب آ Ú†Ú©ÛŒ تھی۔دونوں سپاہ میدان جنگ میں بھوک مٹائے بغیر نہ رہ پائیں۔ ایک دھڑے Ù†Û’ بریڈ پیش Ú©ÛŒ اور دوسرے Ù†Û’ دودھ۔سوپ بنایا اورمل کر کھایا گیااور ساتھ ہی صلØ+ کر لی۔ پیچیدہ Ø+الات اتنی سادگی سے Ø+Ù„ نہیں ہوا کرتے۔ لہٰذا سوپ Ù†Û’ اس وقت جنگ روک تو دی مگر کشیدگی برقرار رہی اور دو برس بعد دونوں میں جنگ ہوئی۔ بہرØ+ال اس سوپ Ù†Û’ سوئس نفسیات میں اپنی جگہ بنا لی۔ آج بھی اگر سوئس سیاست دانوں میں جھگڑا ہو تو وہ اپنے اختلافات نپٹانے Ú©Û’ لیے اس سوپ Ú©ÛŒ میز پر اکٹھے ہوتے ہیں۔ اس سوپ Ú©Ùˆ مِلک سوپی یا دودھ کا سوپ کہا جاتا ہے۔ اس Ú©Û’ دو بنیادی اجزا ہیں، بریڈ اور دودھ۔ عہدوسطیٰ Ú©Û’ سوئس کسانوں میں یہ عام غذا تھی لیکن آج سوئٹزرلینڈ میں اس کا استعمال Ú©Ù… ہو چکا ہے۔ اسے یاد کرنے Ú©ÛŒ Ú©Ù… از Ú©Ù… ایک وجہ ضرور موجود ہے اور وہ ہے خانہ جنگی روکنے میں بنیادی کردار۔ صرف کیتلی کا نقصان: اب آتے ہیں دوسری لڑائی Ú©ÛŒ طرف۔ ہولی رومن ایمپائر مغربی اور وسطی یورپ Ú©Û’ مختلف علاقوں پر مشتمل تھی۔ یہ عہدوسطیٰ Ú©Û’ اوائل میں وجود میں آئی اور نپولین Ú©ÛŒ جنگوں میں تØ+لیل ہو گئی۔ آٹھ اکتوبر 1784Ø¡ Ú©Ùˆ ہولی رومن ایمپائر اور ولندیزی جمہوریہ Ú©Û’ درمیان جنگ ہوئی۔ اسے ’’کیتلی Ú©ÛŒ جنگ‘‘ کہنے کا سبب یہ ہے کہ اس میں صرف ایک گولی Ú†Ù„ÛŒ اور Ù„Ú¯ÛŒ بھی ایک کیتلی Ú©ÙˆÛ” ولندیزیوں Ù†Û’ ہسپانیہ سے آزادی Ú©ÛŒ طویل جنگ 1568Ø¡ سے 1648Ø¡ تک لڑی۔ اس Ú©Û’ نتیجے میں شمالی نیدرلینڈز میں ایک جمہوریہ وجود میں آئی۔ اس جنگ Ú©Û’ دوران ہی انہوں Ù†Û’ دریائے شیلٹ کا کنٹرول Ø+اصل کر لیا تھا۔ جنوبی نیدرلینڈز بالآخر ہولی رومن ایمپائر کا Ø+صہ بن گیا۔ آزاد شمالی نیدرلینڈز Ù†Û’ دریائے شیلٹ پر بØ+ری تجارت پر پابندی لگا دی۔ اس سے نئی جمہوریہ Ú©ÛŒ معیشت Ú©Ùˆ بہت فائدہ ہوا لیکن جنوب Ú©Û’ شہروں Ú©ÛŒ تجارت خاک میں مل گئی۔ ان میں وہ شہر شامل تھے جو آج بلجیئم کا Ø+صہ ہیں۔ 1648Ø¡ میں ہونے والے ’’پیس آف ویسٹ فالیا‘‘ Ú©Û’ تØ+ت اس دریا Ú©ÛŒ تجارتی بندش Ú©Ùˆ تسلیم کر لیا گیا۔ ہولی رومن ایمپائر Ú©Û’ جوزف دوم Ù†Û’ 1781Ø¡ میں ولندیزی جمہوریہ اور سلطنتِ برطانیہ Ú©Û’ مابین لڑائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض علاقے Ø+والے کرنے اور دریا Ú©Ùˆ دوبارہ بØ+ری تجارت Ú©Û’ لیے کھولنے کا مطالبہ کیا۔ ہولی رومن ایمپائر Ú©Ùˆ برطانیہ Ú©ÛŒ Ø+مایت Ø+اصل تھی۔ فرانس Ù†Û’ ولندیزیوں Ú©ÛŒ Ø+مایت کی۔ اگرچہ علاقائی فوج معیاری اسلØ+Û’ سے لیس نہیں تھی اور اسے آرٹلری اور سپلائی Ú©ÛŒ کمیابی کا سامنا تھا لیکن بادشاہ Ù†Û’ جنگ Ú©ÛŒ دھمکی دے ڈالی۔ اسے یقین تھا کہ ولندیزی جمہوریہ جواب دینے Ú©ÛŒ ہمت نہیں کرے گی۔ جوزف دوم Ù†Û’ اپنے تین بØ+ری جہاز بھیجنے کا Ø+Ú©Ù… دیا۔ وہ دریا Ú©Û’ پانیوں پر اپنی فرمانروائی قائم کرنا چاہتا تھا۔ بØ+ری جہازوں میں سے سب سے آگے Ù„ÛŒ لوئس تھا۔ تینوں اینٹویرپ (موجودہ بلجیئم کا ایک قدیم شہر) سے Ù†Ú©Ù„Û’ اور دریائے شیلٹ Ú©Û’ پانیوں پر جنگ Ú©Û’ لیے Ù†Ú©Ù„ Ú©Ú¾Ú‘Û’ ہوئے۔ ولندیزی بØ+ری جہاز ڈولفیجن Ú©Ùˆ شاہی بØ+ری جہازوں کا مقابلہ کرنے Ú©Û’ لیے بھیجا گیا۔ اس Ú©ÛŒ طرف سے صرف ایک گولی Ú†Ù„ÛŒ اور ایک کیتلی Ú©Ùˆ جا لگی۔ اس سے جانے کون سا ایسا تاثر پیدا ہوا کہ Ù„ÛŒ لوئس Ù†Û’ ہتھیار ڈال دیے اور ساتھ دوسروں Ù†Û’Û” اس پر شہنشاہ جوزف دوم Ú©Ùˆ بہت غصہ آیا۔ 30 اکتوبر Ú©Ùˆ بادشاہ Ù†Û’ جنگ کا اعلان کر دیا۔لیکن یہ جنگ خاصی مہنگی ہو سکتی تھی اور پہلے Ø+ملے کا نتیجہ بھی اچھا نہیں نکلا تھا۔ دوسری جانب شہنشاہ Ú©Û’ اعلان پر ابتداً خاموشی اختیارکرنے Ú©Û’ بعد مخالفین Ù†Û’ تیاری شروع کر دی۔ تاہم دوسرا معرکہ نہ ہوا۔ اس چھوٹی سی لڑائی Ú©Û’ نتیجے میں دونوں ممالک Ú©Û’ درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا اور معاہدہ فونٹین بلیو Ø·Û’ پایا۔ اس میں فیصلہ ہوا کہ دریائے شیلٹ پر تجارتی جہاز رانی بند رہے Ú¯ÛŒ لیکن ولندیزی جمہوریہ جنوبی نیدرلینڈز Ú©Ùˆ اس کا ازالہ کرے گی۔ ایک خام اندازے Ú©Û’ مطابق جمہوریہ Ù†Û’ 10 سے 20 لاکھ گلڈر ادائیگی کی۔ خاصے عرصے بعد، بیلجیئم اور نیدرلینڈز Ú©Û’ درمیان دریا Ú©ÛŒ رسائی کا Ø+تمی معاہدہ ہوا۔اس جنگ میں کیتلی Ú©Ùˆ Ù„Ú¯Ù†Û’ والی گولی Ú©Û’ علاوہ کوئی دوسرا فائر نہ ہوا۔ آسٹریلوی شترمرغ Ú©ÛŒ جنگی Ø+کمتِ عملی: آسٹریلیا ترقی یافتہ اور خوش Ø+ال ملک ہے لیکن 1930Ø¡ Ú©ÛŒ دہائی میں اس Ú©ÛŒ معیشت دگرگوں تھی اور اس کا ایک نتیجہ ایمو کہلانے والے مقامی شترمرغوں Ú©Û’ خلاف ’’جنگ‘‘ Ú©ÛŒ Ø´Ú©Ù„ میں نمودار ہوا۔اسے’’جنگ  شتر مرغ‘‘ Ú©Û’ نام سے یاد کیاجاتا ہے جس میں اپنی Ø+کمتِ عملی سے آسٹریلوی شترمرغوں Ù†Û’ آسٹریلوی فوج Ú©Ùˆ واپسی پر مجبور کر دیا Û” اس جنگ کا پسِ منظر Ú©Ú†Ú¾ یوں ہے کہ پہلی عالمی جنگ Ú©Û’ بعد آسٹریلیا Ú©Û’ بہت سے سابق سپاہیوں اور Ú©Ú†Ú¾ برطانوی سپاہیوں Ú©Ùˆ مغربی آسٹریلیا میں کاشت Ú©Û’ لیے زمین دی گئی۔ 1929Ø¡ میں عالمی معاشی بØ+ران Ú©Û’ شروع ہونے پر انہیں اس وعدے Ú©Û’ ساتھ گندم اگانے کا کہا گیا کہ Ø+کومت سبسڈی فراہم کرے گی۔ Ø+کومت ایسا کرنے میں ناکام رہی۔ گندم Ú©ÛŒ قیمت روز بروز Ú©Ù… ہونے لگی۔ 1932Ø¡ تک صورت Ø+ال بہت کشیدہ ہو گئی اور کسانوں Ù†Û’ گندم Ú©ÛŒ فراہمی روکنے Ú©ÛŒ دھمکی دے دی۔ کسانوں Ú©ÛŒ مشکل اس وقت دوچند ہو گئی جب 20 ہزار Ú©Û’ قریب آسٹریلوی شترمرغ ہجرت کر Ú©Û’ ان Ú©Û’ علاقوں میں آن پہنچے۔ شترمرغوں Ú©Ùˆ علاقہ پسند آ گیا کیونکہ ایک تو کسان زمین ہموار کر Ú†Ú©Û’ تھے اور دوسرے مویشیوں وغیرہ Ú©Û’ لیے کیے گئے پانی Ú©Û’ انتظام تک ان Ú©ÛŒ رسائی ممکن تھی۔ انہیں تیار فصلیں بھی اچھی لگیں۔ پس وہ ان پر Ú†Ú‘Ú¾ دوڑے۔ انہوں Ù†Û’ وہ رکاوٹیں بھی توڑ ڈالیں جوفصلیں اجاڑنے والے خرگوشوں Ú©ÛŒ آمد روکنے Ú©Û’ لیے تھیں۔ اس مسئلے کا ایک Ø+Ù„ یہ تھا کہ کسانوں Ú©Ùˆ اسلØ+Û’ Ú©Û’ اجازت نامے زیادہ دے دیے جاتے، وہ شترمرغ اور خرگوش مار ڈالتے اور شاید پکا کر کھا بھی لیتے۔ Ø+کومت Ù†Û’ متاثرہ مغربی آسٹریلیا میں 1932Ø¡ میں ’’جنگ‘‘ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اکتوبر میں شروع ہونے ’’جنگ‘‘ Ú©ÛŒ سربراہی رائل آسٹریلین آرٹلری Ú©ÛŒ سیونتھ ہیوی بیٹری Ú©Û’ میجر جی Ù¾ÛŒ ڈبلیو میریڈتھ Ù†Û’ کی۔ لیکن اس دوران بارشیں شروع ہو گئیں اور ’’جنگ‘‘ روکنا پڑی۔ بارش Ú©Û’ نتیجے میں آسٹریلوی شتر مرغ وسیع علاقے میں پھیل گئے۔ ہوا یہ کہ مشین گنوں سے ان پرندوں Ú©Ùˆ مارنے Ú©ÛŒ کوششیں جزوی طور پر کامیاب ہوتیں۔ زیادہ تر بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے۔ چند ہی دنوں میں شترمرغوں Ù†Û’ Ø+ملے Ú©ÛŒ نوعیت Ú©Ùˆ سمجھ لیا۔ وہ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بٹ گئے۔ ہر ٹولی کا ایک رہنما اور نگران بن گیا۔ ایک شترمرغ گردن اونچی کر Ú©Û’ اردگرد نظر رکھتا اور باقی فصلوں Ú©ÛŒ تباہی کا کام نپٹاتے۔ جوںہی انہیں ’’دشمن‘‘ Ú©ÛŒ آمد کا اØ+ساس ہوتا وہ دوڑ پڑتے۔ Ø+ملہ آور فوج چند ہفتوں میں تھک گئی اور بالآخر اسے واپس بلا لیا گیا۔ اس دوران اندازاً چند سو شترمرغ ہلاک ہوئے۔