خوشگوار زندگی کے چند اصول تحریر : مولانا فضل الرحیم اشرفی
بسا اوقات انسان پر اللہ کی نعمتوں کی برسات ہو رہی ہوتی ہے تو انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ تو میری محنت اور زور بازو کا کمال ہے بس اس غلط فہمی کی وجہ سے اللہ کا ڈر دل سے نکل جاتا ہے پھر اسی انسان کے دل سے یہ بھی نکل جاتا ہے کہ نماز سے کیا ہوتا ہے تلاوت قرآن حکیم کی کیا ضرورت ہے یہ تمام باتیں اللہ کا ڈر نہ ہونے کی علامات ہیں۔
حدیث پاک میں ارشاد ہوا کہ
عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امرنی ربی بتسع خشیۃ اللہ فی السرو العلانیۃ وکلمۃ العدل فی الغضب والرضا و القصد فی الفقر والغنا وان اصل من قطعنی واعطی من حرمنی و اعفو عمن ظلمنی وان تکون صمتی فکراونطقی ذکرا ونظری عبرۃ وامر بالمعروف وقیل بالمعروف(رواہ رزین، مشکوٰۃ باب البکاء والخوف)
ترجمہ :’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے میرے پروردگار نے نو باتوں کا حکم دیا ہے: (۱) ظاہر و باطن میں خدا سے ڈرنا، (۲) انصاف کی بات کہنا غصہ میں اور رضا مندی میں، (۳) افلاس اور دولت مندی دونوں حالتوں میں میانہ روی اختیار کرنا، (۴) جو مجھ سے قطع تعلق کرے میں اس سے قرابت کو قائم رکھوں، (۵) جو مجھے محروم رکھے میں اس شخص کو دوں، (۶) جو شخص مجھ پر ظلم کرے میں اسے معاف کر دوں، (۷) میری خاموشی غور و فکر ہو میرا بولنا ذکر الٰہی ہو، (۸) میرا دیکھنا عبرت کے لیے ہو، (۹) اور میں نیکی کا حکم دوں۔‘‘
ان میں سے اول چیز خوف خدا ہے قرآن حکیم میں انسان کے اندر اللہ کا ڈر پیدا کرنے کے لیے مختلف انداز سے دلائل دیئے گئے۔ کہیں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا تذکرہ کہ دیکھو اللہ نے تمہارے لیے دنیا کی تمام نعمتیں بنائی ہیں یہ آسمان و زمین اور اس کے اندر کی تمام چیزیں یہ پہاڑ، دریا، درخت اور بارش برسا کر زمین سے تمہارے لیے رزق پیدا کرنا، اس قدر نعمتیں اس رب نے انسان کو عطا فرمائی ہیں کہ اس نے فرما دیا ’’ان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوہ‘‘ یعنی اگر تم اللہ کی نعمتیں گننے لگو تو شمار نہیں کر سکو گے۔رب ذوالجلال نے انسان کو اپنی عطا کردہ نعمتیں یاد دلا کر کہا کہ دیکھو اب صرف مجھ سے ڈرو اور میری نافرمانی سے بچو۔
اسی طرح انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کا ڈر پیدا کرنے کے لیے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی بات اور اس کی قدرت کا خوب تذکرہ کیا گیا۔ تاکہ انسان کے اندر خدا کا صحیح تصور پیدا ہو جائے اس لیے کہ اگر خدا کا تصور انسان کے دل میں پختہ ہو جائے تو پھر اس کے نتیجہ میں اللہ کا ڈر یعنی تقویٰ پیدا ہو جائے گا۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے گذشتہ دور کے انسانوں کے واقعات بیان کرکے انسان کی حیات کو خوب واضح فرمایا کہ بعض لوگ اللہ کے احسانات و انعامات کی وجہ سے اللہ سے ڈرتے ہیں اور بعض لوگ اللہ کی قدرت کا مظاہرہ دیکھ کر ڈرتے ہیں۔ یہی کیفیات آج کے معاشرے کے انسان میں بھی نظر آتی ہیں۔ بسا اوقات انسان پر اللہ کی نعمتوں کی برسات ہو رہی ہوتی ہے تو انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ تو میرا حق تھا اور یہ تو میری محنت اور زور بازو کا کمال ہے۔ بس اس غلط فہمی کی وجہ سے اللہ کا ڈر دل سے نکل جاتا ہے۔ پھر اسی انسان کے دل سے یہ بھی نکل جاتا ہے کہ نماز سے کیا ہوتا ہے تلاوت قرآن حکیم کی کیا ضرورت ہے یہ تمام باتیں اللہ کا ڈر نہ ہونے کی علامات ہیں۔ پھر اسی انسان کو جب دنیا میں دکھوں اور مصیبتوں کا سامنا ہوتا ہے کوئی قریبی عزیز بیمار ہو جاتا ہے یا خود کسی مالی یا ذہنی پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے پھر خوب قرآن حکیم کی تلاوت کرتا ہے پانچ وقت نماز مسجد میں ادا کرتا ہے اس لیے کہ اس کے دل میں اللہ کا یقین تو تھا اگر یہی یقین انسان کے دل میں پختہ ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ اس انسان کے ہر کام کو دیکھ رہا ہے تو پھر اس ڈر کی وجہ سے وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرے گا اور یوں یہ انسان ایک کامیاب زندگی گزارے گا۔ معلوم ہوا کہ کامیاب زندگی گزارنے کے لیے اللہ کا ڈر انسان کے اندر ہونا بہت ضروری ہے۔
قرآن مجید میں اللہ نے انسان کے اندر اپنا ڈر پیدا کرنے کے لیے جہاں اپنے احسانات انعامات اور اپنی قدرت اور صفات کا تذکرہ فرمایا وہاں انسان کو اس کے برے اعمال کے برے انجام سے بھی ڈرایا۔ انسان کے دل میں اللہ کا ڈر پیدا کرنے کا ایک اہم محرک عقیدۂ آخرت ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں عقیدہ آخرت کے تمام پہلوئوں کو خوب وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا کہ انسان کو آخرت میں یعنی موت کے بعد آنے والی زندگی میں اس کے ہر عمل کا اچھا بدلہ اور برے عمل کا برا بدلہ ملے گا۔
جب انسان کے اندراللہ کا ڈر پیدا ہو جاتا ہے تو اس انسان کی زندگی میں ایک عظیم انقلاب آجاتا ہے اس کی زندگی میں بہت سی خوشگوار اور عمدہ تبدیلیاں آجاتی ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان باتوں کی نشاندہی فرمائی ہے جو اللہ سے ڈرنے کے نتیجہ میں سامنے آتی ہیں ایسا شخص اللہ پر پختہ ایمان رکھتا ہے، پابندی سے نماز ادا کرتا ہے وممارزقنہم ینفقون جو کچھ اللہ نے اسے دیا اس میں سے خرچ کرتا ہے زکوٰۃ ادا کرتا ہے۔والموفون بعہدہم اذا عاہدوا جب وعدہ کرتے ہیں تو پھر ایسے لوگ وعدہ پورا کرتے ہیں۔ والصابرین فی الباساء والضراء و حین الباس۔اور اللہ سے ڈرنے والے لوگ جب تنگ دستی میں مبتلا ہوتے ہیں یا بیماری اور مصیبت میں گھر جاتے ہیں تو صبر کرتے ہیں اور ثابت قدم رہتے ہیں۔
اللہ سے ڈرنے والوں میں ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کون سی چیز حلال ہے اور کون سی حرام ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق تو انسان متقی یعنی اللہ سے ڈرنے والوں میں اس وقت شمار ہوتا ہے جب وہ ہر اس چیز سے بچتا ہے جو دل میں کھٹکتی ہے۔ اس لیے کہ جب خوف خدا نصیب ہوتا ہے تو انسان مشتبہ چیزوں سے بھی بچتا ہے۔ بلکہ بظاہر چھوٹے گناہ کو بھی پہاڑ کے برابر بوجھل سمجھتا ہے۔ ایسا انسان پھر دوسرے انسان کے حقوق کا بھی ہر مرحلے میں خیال رکھتا ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس بندے کے لیے بہت سے فوائد بتائے ہیں جو اللہ سے ڈرتا ہے جیسے سورۂ حجرات میں فرمایا:
{ان اکرمکم عنداللہ اتقکم}
ترجمہ:’’تم میں سے اللہ کے نزدیک زیادہ عزت والا وہ شخص ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگا ر ہو۔‘‘
جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔ یہی بات سورۂ طلاق میں ارشاد فرمائی:
’’ومن یتق اللہ یجعل لہ مخر جاویرزقہ من حیث لا یحتسب‘‘اور اسی سورت کی چوتھی آیت میں فرمایا ’’جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے کام آسان کر دیتا ہے‘‘۔
سورۂ انفال میں فرمایا۔’’ اگر تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو گے تو اللہ تمہیں حق اور باطل میں فرق کرنے کی قوت عطا فرما دے گا اور تمہارے گناہ دور کر کے تمہیں بخش دے گا‘‘ پھر جو شخص تقویٰ اختیار کرتا ہے اور اللہ سے ڈرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے دوسری چیزوں کے ڈر سے نجات دیدیتاہے۔ سورۂ بنی اسرائیل میں فرمایا’’ جن لوگوں نے تقویٰ اختیار کیا اور نیک ہو گئے ان پر کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ غمگین ہوں گے‘‘۔اللہ سے ڈرنے والوں پر برکتوں اور رحمتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ سورۂ اعراف میں فرمایا ’’اگر اسی بستی والے ایمان لے آتے اور اللہ سے ڈرتے ہوئے پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے‘‘۔سورۃ البقرہ میں فرمایا:
{ واعلموا ان اللہ مع المتقین}
ترجمہ:’’ اور تم مان لو بیشک اللہ متقین کے ساتھ ہے۔‘‘
معلوم ہوا کہ جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں تو پھر اللہ بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے آج معاشرہ میں کسی کا تعلق کسی بڑے عہدیدار سے ہو جائے تو وہ کتنا فخر کرتا ہے اور یوں کہتا ہے کہ مجھے صرف اسی کا ڈر ہے اور کسی کا نہیں۔ اگر انسان کے دل میں صرف اپنے رب کا ڈر پیدا ہو جائے تو یوں کہنے لگے کہ مجھے تو صرف خدا کا ڈر ہے اور کسی کا نہیں تو پھر یقینا انسان کی زندگی کا ہر لمحہ سنور جائے۔
بہترین گھریلو زندگی گزارنے کے طریقے
اب ہم کچھ ذکر خوشگوار گھریلو زندگی کا کرتے ہیں۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،’’ وہ شخص تم میں سے زیادہ اچھا ہے جو اپنی بیوی کے حق میں اچھا ہو (اور فرمایا) اور میں اپنی بیویوں کے لیے تم میں سے زیادہ اچھا ہوں‘‘۔مل جل کر زندگی بسر کرنا انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ انسان کی اس فطری ضرورت کی وجہ سے اسلام نے عائلی زندگی اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔عائلۃ عربی زبان میں بیوی اور گھر کے دیگر افراد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عائلی زندگی سے اسلام نے قرآن حکیم اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کے ذریعہ ایک مکمل عائلی نظام اور اس کے اصول و آداب سکھائے جس کی بدولت انسان کو عائلی زندگی میں راحت و سکون نصیب ہوتا ہے۔ مال و مکان کا تحفظ، عصمت و عفت کی حفاظت، اولاد کی تربیت، ایک دوسرے کے بارے میں احساس ذمہ داری اور آپس کی محبت نصیب ہوتی ہے۔
چنانچہ اسلام نے بیوی کے حقوق و فرائض کے بارے میں خاص طور پر تعلیم دی۔ جس سے زندگی میں راحت و سکون ہونے کی وجہ سے بچے بھی خوشگوار ماحول میں تربیت پا کر عمدہ شہری اور آنکھوں کی ٹھنڈک بنتے ہیں۔
جب بیوی کے حقوق و فرائض کی بات کی جائے گی تو شوہر کے حقوق وفرائض کی بات بھی آجائے گی اس لیے کہ جو بیوی کے حقوق ہیں وہ شوہر کے فرائض ہیں اور جو بیوی کے فرائض ہیں وہ شوہر کے حقوق ہیں۔
چنانچہ بیوی بننے کے بعد اسلام نے عورت کا یہ حق بیان فرمایا:
{واتوا النساء صدقتہن نحلۃ}
یعنی ’’تم عورتوں کے حق مہر کو خوش دلی سے ادا کر دیا کرو۔‘‘
چنانچہ اگر مہر نکاح کے وقت ادا نہ کیا جائے تو پھر بھی ساری زندگی وہ واجب الاداء رہتا ہے۔ مرد صرف حق مہر دے کر فارغ نہیں ہو جاتا بلکہ اس کے بعد بیوی کا حق ہے کہ شوہر بیوی کی ضروریات زندگی کو پورا کرے نان نفقہ اور رہائش یعنی بیوی کا کھانا پینا، اور اس کے رہنے سہنے کا بندوبست کرنا یہ بیوی کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب ’’الرجال قوامون علی النساء‘‘ فرمایا تو اس کی وجہ یہ بھی بیان فرمائی کہ ’’وبما انفقوا من اموالہم‘‘ یعنی ’’ان مردوں نے اپنے مال کو خرچ کیا ہے۔‘‘
ایک شخص نے نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم سے پوچھا کہ بیوی کا شوہر پر کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،’’ جو خود کھائے وہ اسے کھلائے جو خود پہنے وہ اسے پہنائے‘‘۔
لہٰذا بیوی کا یہ حق ہے کہ شوہر اس کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ کرے۔ بلکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بیوی کا اس سے بھی آگے یہ حق ارشاد فرمایا:
{وعاشرو ھن بالمعروف}
’’اور تم ان عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرو۔‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین انسان کی پہچان یہ بتائی کہ :
{خیر کم خیر کم لاہلہ}
’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ بہترہو۔‘‘
اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم خود اپنی زندگی کے ذریعہ سکھائی کیونکہ کامیاب ازدواجی زندگی کا یہ بنیادی اصول ہے۔
اسلام نے بیوی کے علاوہ باقی غیر عورتوں سے ہر طرح کے قلبی رجحانات کی ہر مرحلہ میں حوصلہ شکنی کی اور سخت ممانعت فرمائی اور یہ بتایا کہ ازدواجی زندگی کے اعتبار سے قلبی محبت کا حق صرف بیوی کا ہے۔ اس سے پاک دامنی اور عفت نصیب ہوتی ہے اور گھریلو زندگی میں ایک دوسرے کا اعتماد حاصل رہتا ہے۔ باہمی اعتماد کو اس وقت ٹھیس پہنچتی ہے جب ایک دوسرے کی نجی باتوں اور رازوں کی حفاظت نہ کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس حق کو ان الفاظ میں بیان فرمایا:
{ہن لباس لکم وانتم لباس لہن}
’’عورتیں تمہارے لیے لباس ہیں اور تم عورتوں کے لیے لباس ہو۔‘‘
جس طرح لباس بدن کو ڈھانپ لیتا ہے اسی طرح شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے رازوں پر پردہ ڈالے رکھیں۔ بیوی کا یہ حق ہے کہ شوہر اس کے ساتھ بے تکلفی اور شگفتہ مزاجی کے ساتھ پیش آئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی گھریلو زندگی میں یہ بات خاص طور پر امت کو سکھائی تاکہ دونوں ایک دوسرے کی زندگی میں تعاون کرنے والے بنیں۔اسی طرح بیوی کے رشتہ داروں سے اچھے سلوک سے پیش آنا بھی بیوی کے حقوق میں شامل ہے اور بیوی کے فرائض میں یہ شامل ہے کہ وہ شوہر کے رشتہ داروں سے حسن سلوک سے پیش آئے۔ گھریلو زندگی میں عام طور پر اس وقت بے سکونی آتی ہے جب شوہر یہ توقع کرے کہ بیوی اس کے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ لیکن وہ خود بیوی کے رشتہ داروں سے اچھے سلوک سے پیش نہ آئے حالانکہ یہ بھی بیوی کے حقوق میں شامل ہے لیکن اگر حالات آئندہ زندگی گزارنے کے قابل نہ رہیں تو اسلام نے عورت کو خلع کا حق دیا ہے کہ بیوی کچھ معاوضہ دے کر شوہر سے علیحدگی اختیار کر لے لیکن اگر ہمارے خالق و مالک نے بیوی کے جو فرائض بتائے ہیں ان کو بیوی پیش نظر رکھے اور شوہر کے جو فرائض بتائے ہیں‘ شوہر ان کا خیال رکھے تو طلاق اور خلع تک نوبت ہی نہیں پہنچتی۔اللہ تعالیٰ نے بیوی کے فرائض یوں بیان فرمائے:
{فالصلحت قنتت حفظت للغیب بما حفظ اللہ}
’’کہ بیویاں فرمانبردار ہوتی ہیں اور خاوند کی غیر حاضری میں ان چیزوں کی حفاظت کرتی ہیں جن کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے ان کے سپرد کی ہے۔‘‘
اس مختصر سے جملے میں اللہ تعالیٰ نے کامیاب گھریلو زندگی کے لیے بیوی کے اہم ترین فرائض بتا دیئے۔ ظاہر ہے نیک بیوی تب ہو گی جب کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرے گی۔ اور قانتات یعنی فرمانبردار تب ہو گی جب کہ آپس میں محبت اور عزت و احترام ہو اگر دل میں شوہر کے لیے محبت نہ ہو تو پھر اطاعت و فرمانبرداری، عزت و احترام اور خدمت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی طرح اللہ رب العزت نے بیوی کا یہ فرض بھی بتایا کہ ’’حفظت للغیب‘‘ معلوم ہوا کہ شوہر کے گھر اور اس کے مال کی حفاظت اس کے فرائض میں شامل ہے اور یہ تمام امور سلیقہ شعاری میں شامل ہیں۔ سلیقہ شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے اس سے گھر میں پرسکون ماحول نصیب ہوتا ہے اس سے شوہر اور بچوں کے لیے گھر میں دلچسپی کا سامان پیدا ہوتا ہے اور یہی باتیں آئندہ آنے والی نسل میں منتقل ہو جاتی ہیں۔ سلیقہ شعار اور دیندار بیوی کے بچے بھی یقینی طور پر دیندار اور سلیقہ شعار ہوں گے۔اللہ رب العزت ہمیں گھریلو زندگی میں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے اور اپنے فرائض انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ دعا ہم سب کے لیے قبول فرمائے۔
{ربنا ہب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرۃ اعین}
’’اے ہمارے رب! ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما‘‘آمین۔