پنجاب کے دریا اور شہر
اسد سلیم شیخ
قدیم شہر زیادہ تر دریاؤں کے کنارے یا اُن کے نزدیک آباد ہوئے اور آج بھی آباد ہیں البتہ کئی شہر صدیوں کے عمل کے نتیجے میں رُخ بدلنے کے باعث دریائوں سے دُور ہو گئے۔ ہیرو ڈوٹس کے مطابق قدیم ایام میں دریائے سندھ ہڑپہ کے مغرب میں کہیں نزدیک ہی بہتا تھا۔ ہڑپہ میں سنسکرت کا لفظ APA سرحد، کنارہ کو ظاہر کرتا ہے۔ گو یا یہ پنجاب کے پانچ معاونوں اور سندھ ساگر کے مسروبہ علاقوں کی حد پر تھا۔ رگ ِ وید میں ہڑپہ کی لڑائی اسی حد پر ہوئی تھی۔ دریائے سندھ مغرب کی طرف ہٹنا شروع ہوا اور اس کے پانچ معاون دریا بھی اپنے راستے بدلنے لگے۔ سکندرِ اعظم کے حملہ ہندوستان کے وقت چناب اور سندھ کہروڑ کے قریب آپس میں ملتے تھے۔ اس دَور میں چناب جہلم کے مسروبہ علاقوں میں گُھس گیا۔ راوی اور بیاس بٹالہ کے قریب مل کر اکٹھے ہڈیارہ نالہ میں لاہور اور قصور کے درمیان بہتے تھے۔ قدیم زمانہ میں کسی زلزلہ کے نتیجے میں راوی بٹالہ کے اُوپر شمال کی طرف مڑ گیا۔ بٹالہ پر مرکوز روہی نالہ اور پٹی نالہ اس کی چھوڑی ہوئی یادگاریں ہیں۔ بیاس کی وادی کے گردونواح میں زلزلہ کے باعث قصور کہروڑ پکا لمبائی میں بہاولنگر سے ساہیوال کے قریب تک پانچ ہزار سال پہلے پوری زمین دھنس گئی تھی اور اس وجہ سے کئی شہر مٹی کا ڈھیر ہو گئے تھے۔ بیاس بھی اپنی رہگزر چھوڑ کر جنوب مغرب کی طرف چلا گیا ہے۔ اب اسے سُکھ بیاس کہتے ہیں کہ یہ سُوکھ چکا ہے۔ راوی کی قدیم گزرگاہ موجودہ قلعہ ملتان اور شہر کے ساتھ ساتھ رہی ہے۔ گویا پنجاب کے تمام دریا ماضی میں ایک دوسرے کی گُزرگاہ پر بہتے رہے ہیں۔ اس لیے ماضی میں اگر ایک شہر دریائے جہلم کے کنارے آباد ہوا تو ہو سکتا ہے کہ وہ صدیوں کے اس عمل کے بعد دریائے چناب کے قریب آ گیا ہو۔ بعض مورّخین کا خیال ہے کہ ۱۲۴۵ء میں جب مغل سردار منگوتہ نے ملتان پر حملہ کیا تو اس وقت ملتان شہر دریائے چناب کے مغربی کنارے پر تھا البتہ جب امیر تیمور ملتان پر حملہ آور ہوا تو ملتان کا شہر دریائے چناب کے مشرق میں واقع تھا اور دریا موجودہ گزرگاہ میں بہتا تھا۔ اسی طرح پندرہویں صدی میں دریائے چناب موجودہ جھنگ شہر کے مشرق میں بہتا تھا اور آج کل یہ دریا جھنگ سے سات میل دُور مغرب میں بہہ رہا ہے۔ پنجاب کے جو شہر اور قصبات دریائوں کے کنارے آبادہوئے اور آج بھی آباد چلے آرہے ہیں ان میں دریائے سندھ کے کنارے اٹک، مکھڈ، کالا باغ، میانوالی، کُندیاں، پپلاں، بھکر، لیہ، ڈیرہ غازی خان، مٹھن کوٹ، چاچڑاں وغیرہ ہیں۔ یہ تمام شہر اور قصبات کئی مرتبہ سیلاب کی نذر ہوئے اور اس کے ہاتھوں نقصانات اٹھاتے رہے۔ ڈیرہ غازی خان کا پرانا شہر تو مکمل دریانے ہڑپ کرلیا پھر یہ ۱۹۱۰ء میں موجودہ جگہ پر قائم ہوا۔ انگریزوں کے دَورمیں مٹھن کوٹ میں ایسا سیلاب آیا کہ اس کی تمام عمارتیں بہا لے گیا اسی وجہ سے یہاں کی تحصیلی حیثیت ختم کر کے اسے راجن پور منتقل کر دیا گیا۔ دریائے جہلم کے کنارے ، جہلم، ملکوال، پنڈدا دنخان، میانی بھیرہ اور سرگودھا کا قصبہ ساہیوال آباد ہیں۔ بھیرہ بھی کئی بار اجڑا، برباد ہوا اور پھر آباد ہوتا رہا۔ دریائے چناب جسے رومانی دریا بھی کہتے ہیں سوہنی مہینوال ، ہیر رانجھا اور سسّی پُنوں کی داستانیں اس سے منسوب ہیں۔ اس کے کنارے آباد ہونے والے شہروں اور قصبات میں سوہدرہ ، وزیر آباد، رسولنگر، جلالپور، پنڈی بھٹیاں، چنیوٹ، جھنگ اور شورکوٹ شامل ہیں۔ لاہور، سیّدپوراور چیچہ وطنی راوی کنارے آباد ہیں۔ جب آمدورفت کے جدید ذرائع نہیںتھے۔ سڑکیں پختہ نہیں تھیں۔ ریلوے ابھی جاری نہیں ہوئی تھی تو دریائوں کے ذریعے تجارت عام ہوتی تھی۔ دریائوں کے کنارے آباد اکثر قصبوں اور شہروں پر پتن ہواکرتے تھے جن کے ذریعے مال کی آمدورفت ہوتی تھی۔ دریائے جہلم پر میانی اور پنڈ دا دنخان کے مقامات پر مشہور پتن تھے یہاں سے نمک کی تجارت زوروں پر ہوتی تھی۔ جہلم کی لکڑی بھی دریا کے ذریعے سکھرتک پہنچائی جاتی تھی۔ چناب پر رسولنگر، محمود پور، چوچک وغیرہ کے مقامات پر پتن ہوتے تھے اور ملتان تک تجارتی سامان اس ذریعے سے پہنچایا جاتا تھا۔ مغل بادشاہ اکبر نے لاہور کے مقام پر دریائے راوی پر ایک بہت بڑا بیڑا تیار کرکے دریا میں اُتارا تھا جو ہزاروں من و زن اٹھانے کی سکت رکھتا تھا۔ دریائی تجارت کے باعث ان شہروں کے تاجر خوشحال ہوتے تھے ان میں رونق بہ نسبت دوسرے شہروں کے زیادہ ہوتی تھی۔ انگریزوں کے عہد تک یہ خوشحالی اور رونق برقرار رہی۔ سڑکوں کی تعمیر اور ریلوے نظام کے اجرا کے بعد دریائی راستے سے تجارت ختم ہو کر رہ گئی۔ بسیں، ٹرک، اور ریل گاڑیاں دنوں کا کام گھنٹوں میں کرنے لگیں۔ اس طرح دریائی تجارت کے باعث خوشحال شہر اور قصبے بھی زوال پذیر ہونے لگے اور ان کی جگہ ریلوے اسٹیشنوں اور زرعی منڈیوں کے قیام کے باعث نئے شہروں کو عروج حاصل ہونے لگا۔ میانی ، پنڈ دادنخان، بھیرہ، مٹھن کوٹ جیسے شہروں کی عظمت ختم ہو کر رہ گئی اور آج یہ ماضی کی شان و شوکت میں گم درمیانے درجے کے پسماندہ قصبات کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں۔ دریائوں کا وہ پانی جس کے سینے پر چلتی کشتیاں کبھی ان کے پتنوں پر اُترتی تھیں اب ان کے لیے مفید نہیں رہا بلکہ کبھی کبھار ان کے گھروں کو اُجاڑنے کے لیے آدوڑتا تھا۔ (کتاب ’’نگر نگر پنجاب‘‘ سے منقبس)