آئن سٹائن سے جاپانی کا گلہ
شہاب الدین
۔1922ء کے موسمِ خزاں میں آئن سٹائن اوران کی بیوی ایلزا مارسیلز سے جہاز پر روانہ ہوئے۔ مصر، ہندوستان (ممبئی) اور چین، جہاں جہاں بھی جہاز لنگرانداز ہوا، جوق در جوق لوگ ان کا پُرتپاک استقبال کرنے کے لیے موجود تھے۔ جہاز جاپان پہنچا، اس دن وہاں قومی تعطیل منائی گئی۔ جاپان کی ملکہ معظمہ نے پیش قدمی کر کے آئن سٹائن اور ایلزا کا استقبال کیا، جو جاپانی روایت کے لحاظ سے غیر معمولی بات تھی۔ جاپان میں جہاں جہاں آئن سٹائن کے لیکچر ہوئے، لوگ کثیر تعداد میں آئے اور ترجمان کے ذریعے سنتے رہے۔ اس طرح لیکچر کا وقت خاصا طویل ہو جاتا تھا۔ آئن سٹائن کو خیال ہوا کہ گھنٹوں ایک اجنبی زبان میں اس کا بولتے رہنا سامعین کے لیے یقینا صبرآزما تجربہ ہو گا۔ ایک شہر میں تو اس کا لیکچر چار گھنٹے تک جاری رہا، پھر بھی لوگ بیٹھے سنتے رہے۔ آئن سٹائن کو اس زیادتی کا خیال ہوا، اگلی بار دوسرے شہر میں اس نے اپنا لیکچر دو گھنٹوں میں ختم کر دیا، اور اپنے اس کارنامے پر بڑا خوش ہوا۔ مگر رات کے ڈنر پر اس نے اپنے میزبان کو نہایت سنجیدہ دیکھا۔ وہ خاموش خاموش سے نظر آ رہے تھے۔ آئن سٹائن سے نہ رہا گیا۔ اس نے کرید کر میزبان کی غیر معمولی سنجیدگی کا سبب پوچھا۔ میزبان نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا ’’اب آپ پوچھتے ہیں تو بتا ہی دوں۔ ہمارے شہر کے لوگوں کو شکایت ہے کہ آپ نے ان کی توہین کی ہے۔‘‘ ’’توہین؟‘‘ آئن سٹائن نے چونک کا پوچھا ’’وہ کیسے؟‘‘ میزبان نے کہا ’’اس طرح کے دوسرے مقامات پر آپ تین تین چار چار گھنٹے تقریر کرتے رہے اور ہمارے یہاں صرف دو گھنٹے؟ کیا ہم اس قابل نہ تھے کہ ہمارے سامنے بھی آپ چار گھنٹے بولتے؟‘‘ غریب آئن سٹائن معذرت چاہنے کے سوا اور کر ہی کیا سکتا تھا! جاپان میں آئن سٹائن وہاں کے لوگوں کے اخلاق اور خلوص سے بہت متاثر ہوا، البتہ انسانی رکشے کی سواری اسے بالکل پسند نہیں آئی۔ ایک انسان کا دوسرے انسان کو جانور کی طرح اپنا بوجھ ڈھونے کے لیے استعمال کرنا، اسے بالکل گوارا نہ تھا۔ وہ رکشے پر کبھی نہیں بیٹھا۔ جاپان سے رخصت ہونے لگا تو اس کے پاس تحفے تحائف کے کئی باکس بھرے پڑے تھے۔ وہ فلسطین سے ہوتا ہوا واپس آ رہا تھا کہ راستے میں اسے ایک سنسنی خیز اطلاع ملی۔ سویڈن کی اکیڈمی آف سائنس نے آئن سٹائن کو طبیعات کا نوبیل انعام دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ سب سے بڑا اعزاز ہے، جو دنیا کے کسی سائنس دان کو حاصل ہو سکتا ہے۔ یہ خبر جرمنی میں بھی مسرت کے ساتھ سنی گئی۔ آخر وہ تھا تو جرمنی کا شہری۔ عالمی جنگ کے بعد جرمنی میں یہ پہلا نوبیل انعام آیا تھا۔ جنگ میں شکست کی خفت اس طرح کچھ تو دور ہو گی!آئن سٹائن روپے پیسے سے بے نیاز تو تھا ہی، اس نے یہ ساری رقم اپنی پہلی بیوی سے دو لڑکوں کی تعلیم کے لیے سوئٹزر لینڈ بھیج دی۔ جاپان کے سفر کے بعد آئن سٹائن پھر اپنے کام میں لگ گیا اور کئی برس تک جرمنی میں مقیم رہا۔ کبھی کبھار یورپ کے ملکوں کے سفر پر اور ایک بار جنوبی امریکا جانا ہوا۔ اب اس کی شہرت دور دور تک پھیل چکی تھی، جو لوگ برلن سیر کرنے آتے وہ جب تک آئن سٹائن کی ایک جھلک نہ دیکھ لیتے، اپنی سیر کو نامکمل تصور کرتے۔ دن بھر کوئی نہ کوئی اس کے گھر کا طواف کرتا دکھائی دیتا، اس امید پر کہ شاید اس عظیم انسان کی ایک جھلک دکھائی دے اور وہ یہ فخریہ کہہ سکے کہ میں نے آئن سٹائن کو دیکھا۔ لیکن خود آئن سٹائن حیران ہوتا کہ آخر لوگ اسے دیکھنا کیوں چاہتے ہیں؟ اسے دیکھ کر انہیں کیا ملتا ہے؟ وہ تو خیریت تھی کہ ایلزا ان مشتاقانِ دید کی جانچ پڑتال کر کے صرف ان لوگوں کو ہی آئن سٹائن سے ملنے کا موقع دیتی، جو واقعی اس کے اہل ہوتے۔ آئن سٹائن سب سے یکساں طور پر خوش اخلاقی سے پیش آتا، چاہے وہ کوئی بڑا آدمی ہو یا چھوٹا۔ ملاقات کے شیدائیوں میں جو موسیقار ہوتے، ان کی رسائی آئن سٹائن تک بڑی آسانی سے ہو جایا کرتی۔ اپنے سارے تحقیقی مشغلوں کے باوجود وہ دو چیزوں سے کبھی دست بردار نہیں نہ ہو سکا… چہل قدمی اور موسیقی!