کیا خوف سے موت ہو سکتی ہے؟
آپ کسی مشکل صورت حال سے نکل رہے ہیںاور کوئی دوست آپ کے اوپر اچھل پڑتا ہے۔ آپ کے دل کی دھڑکن تیزہو جاتی ہے اور سانس پھول جاتی ہے۔ آپ اسے کہتے ہیں ’’تم نے تومجھے خوف سے مار ہی ڈالا!‘‘ بلاشبہ اس عام سے جملے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ وفات پا چکے ہیں لیکن ایسا عموماً کہا جاتا ہے۔ دراصل ہمیں یہ سوال پوچھنا چاہیے؛ کیا خوف زدہ ہونے سے موت واقع ہو سکتی ہے؟ اس سوال کا جواب ہے ہاں، خوف سے انسان مر سکتا ہے۔ درحقیقت کسی قسم کے شدید جذبات کیمیکلز، جیسا کہ اڈرینالین، کی مہلک مقدار کے اخراج کا سبب بن سکتے ہیں۔ ایسا ہوتا بہت کم ہے، البتہ ہو کسی کے ساتھ بھی سکتا ہے۔ خوف یا دیگر شدید جذبات سے ہلاکت کا خطرہ ان افراد کو زیادہ ہوتا ہے جنہیں پہلے سے دل کے مسائل کا سامنا ہو۔ خوف سے موت شدید جذبات پر ہمارے خودکار ردعمل کے سبب ہوتی ہے۔ خوف سے موت کی ابتدا ’’لڑیں یا اڑیں ردعمل‘‘ سے ہوتی ہے، جو کہ کسی خطرے کے خلاف جسم کا قدرتی ردعمل ہوتاہے۔ اس ردعمل کی خصوصیات دل کی رفتار میں تیزی، تشویش، پسینہ آنا اور خون میں گلوکوز کی سطح بڑھنا ہیں۔ لیکن لڑیں یا اڑیں کی جبلت موت کی جانب کیسے لے جاتی ہے؟ یہ سمجھنے کے لیے ہمیں جاننا ہوگا کہ متحرک ہونے، بنیادی طور پر ہارمون کااخراج ہونے پر نظام اعصاب کیا کر رہا ہوتا ہے۔ یہ ہارمون جو اڈرینالین یا کوئی دوسرا پیغام رساں ہو سکتا ہے، جسم کو عمل کے لیے تیار کرتا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ ایڈرینالین اور اسی طرح کے دوسرے کیمیکلز زیادہ مقدار میں دل، جگر، گردوں اور پھیپھڑوں جیسے اعضا کے لیے زہریلے ہوتے ہیں۔ سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ بالخصوص خوف سے اچانک موت دل کو پہنچنے والے نقصان سے ہوتی ہے، کیونکہ یہ وہ عضو ہے جو اثرانداز ہونے پراچانک موت کا سبب بن سکتا ہے۔ اڈرینالین دل کی جانب کیلشیم کھول دیتا ہے۔ دل میں بہت زیادہ کیلشیم جانے سے دل کو رفتار کم کرنے میں مشکل ہوتی ہے، جس سے بعض اوقات دل کی دھڑکن میں ’’وینٹریکولر فیبریلیشن‘‘ نامی ایک خاص قسم کا خلل پیدا ہو جاتا ہے۔ دل کی دھڑکن میں بے قاعدگی سے عضو جسم میں خون پمپ نہیں کر پاتااور اگر فوری علاج نہ کیا جائے تو موت واقع ہو جاتی ہے۔ اڈرینالین کی زیادہ مقدار صرف خوف سے پیدا نہیں ہوتی۔ دیگر شدید جذبات بھی اسے پیدا کر سکتے ہیں۔ (ترجمہ و تلخیص: رضوان عطا)