اطاعت و استغفار کے ذریعے آفات سے نجات ، رانا اعجاز
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’جب مال غنیمت کو دولت قرار دیا جانے لگے اور جب زکوٰۃ کو تاوان سمجھا جانے لگے اور جب علم کو دین کے علاوہ کسی اور غرض سے سکھایا جانے لگے، اور جب مرد، بیوی کی اطاعت کرنے لگے اور جب ماں کی نافرمانی کی جانے لگے اور جب دوستوں کو قریب اور باپ کو دور کیا جانے لگے اور جب مسجد میں شوروغل مچایا جانے لگے اور جب قوم و جماعت کی سرداری، اس قوم و جماعت کے فاسق شخص کرنے لگیں اورجب قوم و جماعت کے زعیم و سربراہ اس قوم و جماعت کے کمینہ اور رذیل شخص ہونے لگیں اور جب آدمی کی تعظیم اس کے شر اور فتنہ کے ڈر سے کی جانے لگے اور جب لوگوں میں گانے والیوں اور سازو باجوں کا دور دورہ ہو جائے اور جب شرابیں پی جانی لگیں اور جب اس امت کے پچھلے لوگ اگلے لوگوں کو برا کہنے لگیں اور ان پر لعنت بھیجنے لگیں تو اس وقت تم ان چیزوں کے جلدی ظاہر ہونے کا انتظار کرو، سرخ یعنی تیز و تند اور شدید ترین طوفانی آندھی کا، زلزلے کا، زمین میں دھنس جانے کا، صورتوں کے مسخ و تبدیل ہو جانے کا اور پتھروں کے برسنے کا، نیز ان چیزوں کے علاوہ قیامت اور تمام نشانیوں اور علامتوں کا انتظار کرو،جو اس طرح پے درپے وقوع پذیر ہوں گی جیسے (موتیوں کی) لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور اس کے دانے پے درپے گرنے لگیں‘‘۔
مذکورہ بالا حدیث میں کچھ ان برائیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو اگرچہ دنیا میں ہمیشہ موجود رہی ہیں اور کوئی بھی زمانہ ان برائیوں سے خالی نہیں رہا ہے لیکن جب معاشرے میں یہ برائیاں کثرت سے پھیل جائیں اور غیر معمولی طور پر ان کا دور دورہ ہو جائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا سخت ترین عذاب خواہ وہ کسی شکل وصورت میں ہوا، اس معاشرہ پر نازل ہونے والا ہے اور دنیا کے خاتمے کا وقت قریب تر ہو گیا ہے۔
مال غنیمت کو دولت قراردئیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اگرسلطنت کے اہل طاقت وثروت اور اونچے عہدے دار مال غنیمت کو شرعی حکم کے مطابق تمام حقداروں کو تقسیم کرنے کی بجائے خود اپنے درمیان تقسیم کر کے بیٹھ جائیں اور محتاج و ضرورت مند اور چھوٹے لوگوں کو اس مال سے محروم رکھ کر اس کو صرف اپنے مصرف میں خرچ کرنے لگیں تواس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ اس مال غنیمت کے تمام حقداروں کا مشترکہ حق نہیں سمجھتے بلکہ اپنی ذاتی دولت سمجھتے ہیں۔
امانت کو مال غنیمت شمار کرنے سے مراد یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس امانتیں محفوظ کرائی جائیں وہ ان امانتوں میں خیانت کرنے لگیں اور امانت کے مال غنیمت کی طرح اپنا ذاتی حق سمجھنے لگیں جو دشمنوں سے حاصل ہوتا ہے۔ زکوٰۃ کو تاوان سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ کا ادا کرنا لوگوں پر اس طرح شاق اور بھاری گزرنے لگے کہ گویا ان سے ان کا مال زبردستی چھینا جا رہا ہے اور جیسے کوئی شخص تاوان اور جرمانہ کرتے وقت سخت تنگی اوربوجھ محسوس کرتا ہے۔
علم کو دین کے علاوہ کسی اورغرض سے سکھانے کا مطلب یہ ہے کہ علم سکھانے اور علم پھیلانے کا اصل مقصد دین وشریعت کی عمل اور اخلاق و کردار کی اصلاح و تہذیب انسانیت اور سماجی کی فلاح و بہود اور خدا و رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قرب وخوشنودی حاصل کرنا نہ ہو بلکہ اس کے ذریعہ دنیا کی عزت ،مال ودولت، جاہ ومنصب اورایوان اقتدار میں تقرب حاصل کرنا مقصود ہو۔
مرد کا بیوی کی اطاعت کرنا یہ ہے کہ خاوند زن مرید ہو جائے اور اس طرح بیوی کا حکم مانے اور اس کی ہر ضرورت پوری کرنے لگے کہ اس کی وجہ سے خدا کے حکم و ہدایت کی صریح خلاف ورزی ہو۔
ماں کی نافرمانی کرنے سے مراد یہ ہے کہ ماں کی اطاعت و فرمانبرداری کا جو حق ہے اس سے لاپرواہ ہو جائے اور کسی شرعی وجہ کے بغیر اس کی نافرمانی کر کے اس کا دل دکھائے، واضح رہے کہ یہاں صرف ماں کی تخصیص اس اعتبار سے ہے کہ اولاد کے لئے چونکہ باپ کی بہ نسبت ماں زیادہ مشقت اور تکلیف برداشت کرتی ہے اس لئے وہ اولاد پر باپ سے زیادہ حق رکھتی ہے۔
دوستوں کے قریب اور باپ کودور کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنا وقت باپ کی خدمت میں حاضر رہنے، اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور اس کی دیکھ بھال میں صرف کرنے کے بجائے دوستوں کے ساتھ مجلس بازی کرنے، ان کے ساتھ گپ شپ اور سیر و تفریح کرنے میں صرف کرے اور اپنے معمولات وحرکات سے ایسا ظاہر کرے کہ اس کو باپ سے زیادہ دوستوں کے ساتھ تعلق وموانست ہے۔
مسجد میں شوروغل کرنے سے مراد یہ ہے کہ مسجدوں میں زور زور سے باتیں کی جائیں، چیخ و پکار کے ذریعے مسجد کے سکون میں خلل ڈالا جائے اور اس کے ادب واحترام سے لاپرواہی برتی جائے۔
کسی قوم و جماعت کا سردار اس قوم کے فاسق کے ہونے سے مراد یہ ہے کہ قیادت وسیادت اگر ایسے لوگوں کے سپرد ہونے لگے جو بدکردار، بدقماش اور بے ایمان ہوں تو یہ بات پوری جماعت اور پوری قوم کے تباہی کی علامت ہو گی۔ اسی طرح اگر کسی قوم وجماعت کے زعما ان لوگوں کو قرار دیا جانے لگے جو اپنی قوم و جماعت کے کمینہ صفت، بد کردار اور رذیل ترین ہوں تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس قوم وجماعت کی تباہی کے دن آ گئے ہیں۔
آدمی کی تعظیم، اس کے فتنہ و شر کے ڈر سے کی جانے کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کی تعظیم واحترام کا معیا ر اسکی ذاتی فضیلت وعظمت نہ ہو بلکہ اس کی برائی اور اس کے شر کا خوف ہو۔ یعنی کسی شخص کی اس لئے تعظیم کی جائے کہ وہ دوسروں کو نقصان پہنچانے یا ستانے کی طاقت رکھتا ہے، جیسے کسی فاسق و بدقماش کو اقتدار وغلبہ حاصل ہو جائے اور لوگ اس کی عزت اور اس کی تعظیم کرنے پر مجبور ہوں۔
گانے والیوں سے مراد گلوکارائیں، رقاصائیں، ڈومنیاں اور نائنیں وغیرہ ہیں۔ اسی طرح باجوں سے مراد ہر قسم کے ساز و باجے اور گانے بجانے کے آلات ہیں جن کوشرعی اصطلاح میں مزامیر کہا جاتا ہے جیسے ڈھولک، ہارمونیم، طبلہ، سارنگی اور شہنائی وغیرہ۔
شرابوں، جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے کیونکہ یہاں شراب کی تمام انواع واقسام اور دیگر دوسری نشہ آور اشیاء بھی مراد ہیں۔ جب اس امت کے پچھلے لوگ، اگلے لوگوں کو برا بھلا کہنے لگیں گے، تو پھر سرخ آندھیوں اور زلزلوں کے لئے تیار رہو۔ قارئین کرام! آج ہمارے اعمال اور ہماری حکومتوں کا طرز عمل آپ سب کے سامنے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے زلزلوں کی کثرت ہے، گزشتہ روز بھی پاکستان کے بیش تر شہر زلزلے سے لرز اٹھے جہاں زلزلوں نے زمین کو چیر کر رکھ دیا، ان زلزلوں کے بارے میں سائنسی ماہرین کا نقطہ نظر اپنی جگہ، مگر دین اسلام کی روشنی میں زلزلوں کی کثرت احکام الٰہی سے رد گردانی و نافرمانی کے سبب ہے۔
قرآن کریم کی سورۃ الحج میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرجائو، بلاشبہ قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔‘‘ بلاشبہ کوئی چیز اذن الٰہی کے سوا حرکت نہیں کرسکتی خواہ درخت کا پتہ ہو یا زمین کا زلزلہ اور سائنسدانوں کے مختلف مفروضات محض وہم و گمان ہیں۔ قدرتی آفات سے نجات کا واحد ذریعہ اطاعت خداوندی اور کثرت استغفار ہے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ ہمیں اپنی اطاعت اور بندگی اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق زندگی گزارنے والا بنائے اور ہر قسم کی آفات سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔