سرسید اØ+مد خان Ú©ÛŒ علمی خدمات
خلیق اØ+مد نظامی
سرسید اØ+مد خان اپنی ذات میں ایک انجمن تو تھے Ûی، علمی اعتبار سے بھی ان Ú©ÛŒ Ø+یثیت ایک Ø§Ø¯Ø§Ø±Û Ø³Û’ Ú©Ù… Ù†Û ØªÚ¾ÛŒÛ” انشا Ùˆ ادب، تØ+قیق Ùˆ تنقید، ÙلسÙÛ Ùˆ مذÛب، تاریخ Ùˆ عمرانیات، غرض جس میدان میں دیکھیے ان Ú©ÛŒ شخصیت ممتاز اور منÙرد نظر آتی ÛÛ’Û” انÛÙˆÚº Ù†Û’ Ù†Û ØµØ±Ù Ø®ÙˆØ¯ شاندار علمی Ùˆ ادبی کارنامے انجام دیے Ø¨Ù„Ú©Û Ø¬Ùˆ بھی ان Ú©Û’ قریب آ گیا اس Ú©ÛŒ شخصیت Ú©Ùˆ ایک جلا مل گئی اور کام کرنے Ú©Û’ لیے ایسے جذبات اس میں بیدار ÛÙˆ گئے Ú©Û Ù¾Ú¾Ø± عمر بھر اسی میں منÛÙ…Ú© اور سرگرداں رÛا۔ ان Ú©Û’ Ùیض صØ+بت سے کتنے ÛÛŒ سنگ ریزے اÙÙ‚ علم پر آÙتاب بن کر Ú†Ù…Ú© اٹھے۔ ان میں ’’آدم گری‘‘ کا Ø+ÙˆØµÙ„Û Ø¨Ú¾ÛŒ تھا اور â€™â€™Ø´ÛŒØ´Û Ú¯Ø±ÛŒâ€˜â€˜ Ú©ÛŒ صلاØ+یت بھی۔ شبلی نعمانی Ù†Û’ 1898Ø¡ میں دعویٰ کیا تھا: ’’ملک میں آج بڑے بڑے انشا پرداز موجود Ûیں جو اپنے اپنے مخصوص Ø¯Ø§Ø¦Ø±Û Ù…Ø¶Ù…ÙˆÙ† Ú©Û’ Ø+کمراں Ûیں لیکن ان میں سے ایک شخص بھی Ù†Ûیں جو سرسید Ú©Û’ بار اØ+سان سے گردن اٹھا سکتا Ûو۔‘‘ Ø+قیقت ÛŒÛ ÛÛ’ Ú©Û Ø§Ù†ÛŒØ³ÙˆÛŒÚº صدی میں مسلمانوں Ú©ÛŒ علمی اور ادبی زندگی کا سب سے بڑا مرکز سرسید کا علی Ú¯Ú‘Ú¾ تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد Ù†Û’ سرسید Ú©Û’ وسیع اثرات کا Ø¬Ø§Ø¦Ø²Û Ù„ÛŒØªÛ’ Ûوئے ایک بار Ú©Ûا تھا: ’’مرØ+وم سرسید اور ان Ú©Û’ ساتھیوں Ù†Û’ علی Ú¯Ú‘Ú¾ میں صر٠ایک کالج ÛÛŒ قائم Ù†Ûیں کیا تھا Ø¨Ù„Ú©Û ÙˆÙ‚Øª Ú©ÛŒ تمام علمی اور ادبی سرگرمیوں Ú©Û’ لیے ایک ترقی پسند Ø+Ù„Ù‚Û Ù¾ÛŒØ¯Ø§ کر دیا تھا۔ اس Ø+Ù„Ù‚Û Ú©ÛŒ مرکزی شخصیت خود ان کا وجود تھا اور ان Ú©Û’ گرد ملک Ú©Û’ بÛترین دماغ جمع ÛÙˆ گئے تھے۔ Ûندوستان Ú©Û’ کسی موقت الشیوع رسالے Ù†Û’ شاید ÛÛŒ ایسے Ú¯Ûرے اثرات وقت Ú©ÛŒ دماغی رÙتار پر ڈالے ÛÙˆÚº جیسے Ú©Û ØªÛذیب الاخلاق سے مرتب Ûوئے… ÙÛŒ الØ+قیقت جدید اردو علم Ùˆ ادب Ú©ÛŒ بنیادیں اسی رسالے Ù†Û’ استوار کیں اور اس قابل بنا دیا Ú©Û Ø§Ù“Ø¬ Ûر طرØ+ Ú©Û’ علمی اور ادبی مطالبے ادا کرنے Ú©ÛŒ اس میں صلاØ+یت پیدا ÛÙˆ گئی ÛÛ’Û” اس عÛد کا شاید ÛÛŒ کوئی قابل٠ذکر اÛÙ„ قلم ایسا ÛÙˆ گا جو اس مرکزی Ø+لقے Ú©Û’ اثرات سے متاثر Ù†Û Ûوا ÛÙˆÛ” جدید Ûندوستان Ú©Û’ بÛترین مسلمان مصن٠اسی Ø+Ù„Ù‚Û Ú©Û’ زیراثر پیدا Ûوئے اور ÛŒÛیں نئے قسم Ú©ÛŒ اسلامی تØ+قیق Ùˆ تصنی٠کی راÛیں Ù¾ÛÙ„Û’ Ù¾ÛÙ„ÛŒ کھولی گئیں۔ اردو Ú©ÛŒ نئی شاعری Ú©ÛŒ بنیاد Ø§Ú¯Ø±Ú†Û Ù„Ø§Ûور میں Ù¾Ú‘ÛŒ تھی مگر اس Ú©ÛŒ نشوونما ÛŒÛیں Ú©ÛŒ آب Ùˆ Ûوا میں ملی اور Ù…Ø+Ù…ÚˆÙ† ایجوکیشنل کانÙرنس Ú©Û’ Ø³Ø§Ù„Ø§Ù†Û Ø¬Ù„Ø³ÙˆÚº میں نئی قسم Ú©ÛŒ نظمیں Ù¾Ú‘Ú¾ÛŒ جانے لگیں۔ اردو خطابت Ú©ÛŒ Ù¾ÛÙ„ÛŒ Ø¯Ø±Ø³Ú¯Ø§Û ÛŒÛÛŒ تھی۔ اس دور Ú©Û’ تمام مشÛور مقرروں Ú©Ùˆ اسی Ø+Ù„Ù‚Û Ù†Û’ پیدا کیا تھا اور اگر پیدا Ù†Ûیں کیا تھا تو ان Ú©Û’ لیے پلیٹ Ùارم ÛŒÛیں Ù…Ûیا کیا تھا۔‘‘ سرسید Ù†Û’ Ù†Û ØµØ±Ù Ø§Ø±Ø¯Ùˆ Ú©Û’ نئے، سادÛØŒ Ù¾Ùرزور اور Ù¾Ùراسلوب بیان Ú©ÛŒ بنیاد ڈالی Ø¨Ù„Ú©Û ØªÙ„Ø§Ø´ Ùˆ تØ+قیق Ú©ÛŒ نئی راÛیں بھی دکھائیں اور Ùکرونظر Ú©ÛŒ دنیا میں ایک اجالا کر دیا۔ معاصرین ÛÛŒ Ù†Ûیں Ø¨Ù„Ú©Û Ø¨Ø¹Ø¯ Ú©Ùˆ آنے والی نسلوں Ù†Û’ بھی ان Ú©ÛŒ قائم Ú©ÛŒ Ûوئی روایات سے زندگی Ú©Û’ Ûر میدان میں روشنی اور رÛبری Ø+اصل کی۔ سرسید Ù†Û’ تقریباً Ûر اÛÙ… موضوع پر قلم اٹھایا اور اس کا Ø+Ù‚ ادا کر دیا۔ شاید ÛÛŒ کوئی ایسا ÙÙ† ÛÙˆ جس میں انÛÙˆÚº Ù†Û’ گرانقدر اضاÙÛ Ù†Û Ú©ÛŒØ§ ÛÙˆÛ” بقول شبلی ’’سرسید Ú©ÛŒ انشا پردازی کا سب سے بڑا کمال ÛŒÛ ÛÛ’ Ú©Û Ûر قسم Ú©Û’ مختل٠مضامین پر Ú©Ú†Ú¾ Ù†Û Ú©Ú†Ú¾ Ø¨Ù„Ú©Û Ø¨Ûت Ú©Ú†Ú¾ لکھا ÛÛ’ اور جس مضمون Ú©Ùˆ لکھا ÛÛ’ اس Ø¯Ø±Ø¬Û Ù¾Ø± Ù¾Ûنچا دیا ÛÛ’ Ú©Û Ø§Ø³ سے بڑھ کر ناممکن ÛÛ’Û” Ùارسی اور اردو میں بڑے بڑے شعرا اور نثار گزرے Ûیں لیکن ان میں ایک بھی ایسا Ù†Û ØªÚ¾Ø§ جو تمام قسم Ú©Û’ مضامین کا Ø+Ù‚ ادا کر سکتا Ûے۔‘‘ سرسید Ú©Ùˆ شبلی Ù†Û’ بجا طور پر اردو انشا پردازی کا ’’مجدد‘‘ اور ’’امام‘‘ Ú©Ûا ÛÛ’Û” انÛÙˆÚº Ù†Û’ اردو ادب Ú©Ùˆ نیا روپ نیا آÛÙ†Ú¯ اور نیا عزم٠سÙر بخشا۔ اردو نثر ایک مدت سے دور ازکار تشبیÛات، لایعنی استعارات اور Ø´Ø§Ø¹Ø±Ø§Ù†Û Ù…Ø¨Ø§Ù„ØºÛ Ø§Ù“Ø±Ø§Ø¦ÛŒ Ú©Û’ پیچ Ùˆ خم میں Ú¯Ù… تھی اور الÙاظ Ú©Û’ گورکھ دھندوں Ù†Û’ اس Ú©ÛŒ Ùکری توانائی Ú©Ùˆ مضمØ+Ù„ کر دیا تھا۔ سرسید Ù†Û’ اس Ú©Ùˆ اÙکار Ú©ÛŒ نئی دنیا دکھائی اور اس میں سÙر کرنا سکھایا۔ سرسید کا ÛŒÛ Ú©Ø§Ø±Ù†Ø§Ù…Û Ø§Ø±Ø¯Ùˆ ادب Ú©ÛŒ تاریخ میں ÛÙ…ÛŒØ´Û ÛŒØ§Ø¯ رÛÛ’ گا Ú©Û Ø§Ù†ÛÙˆÚº Ù†Û’ اردو زبان Ú©Ùˆ ایسی توانائی بخشی Ú©Û ÙˆÛ Ù…Ù„Ú©ÛŒØŒ سیاسی، اخلاقی، تاریخی اور ÙلسÙÛŒØ§Ù†Û ØºØ±Ø¶ Ûر قسم Ú©Û’ اÙکار اور مضامین Ú©Ùˆ صÙائی، سادگی اور Ù¾Ùرتاثیر انداز میں ادا کرنے Ú©Û’ قابل بن گئی۔ انÛÙˆÚº Ù†Û’ اپنے مضامین Ú©Û’ Ø°Ø±ÛŒØ¹Û Ù…ØºØ±Ø¨ Ú©Û’ اÙکار، نظریات اور شخصیات سے معاصرین Ú©Ùˆ روشناس کرایا۔ تÛذیب الاخلاق Ù†Û’ Ù†Û ØµØ±Ù Ø§Ø±Ø¯Ùˆ میں صØ+اÙت Ú©ÛŒ بنیاد ڈالی Ø¨Ù„Ú©Û Ø+قیقت ÛŒÛ ÛÛ’ Ú©Û Ø§Ù“Ø¦Ù†Ø¯Û ØµØ¯ÛŒ میں جو سرگرمی اس میدان میں نظر آئی ÙˆÛ ØªÛذیب الاخلاق ÛÛŒ Ú©ÛŒ رÛین٠منت تھی۔ سرسید Ú©Ûا کرتے تھے Ú©Û â€™â€™ØªÛذیب الاخلاق کا Ù¾Ø±Ú†Û Ø§Ø¨ØªØ¯Ø§ میں اسی ÙˆØ§Ø³Ø·Û Ø¬Ø§Ø±ÛŒ کیا گیا تھا Ú©Û Ûندوستانیوں Ú©Û’ دل جو Ù…Ø±Ø¯Û ÛÙˆ گئے Ûیں ان میں Ú©Ú†Ú¾ تØ+ریک لائی جاوے۔‘‘ سرسید Ù†Û’ اردو شاعری کا رخ بدل دیا اور اس Ú©Ùˆ قومی اور اصلاØ+ÛŒ مقاصد Ú©Û’ لیے استعمال کرنے کا Ø¨ÛŒÚ‘Û Ø§Ù¹Ú¾Ø§ÛŒØ§Û” ÙˆÛ â€™â€™Ø§Ø¯Ø¨ برائے ادب‘‘ Ú©Û’ قائل Ù†Ûیں تھے۔ ÙˆÛ Ø´Ø§Ø¹Ø±ÛŒ Ú©Û’ Ø°Ø±ÛŒØ¹Û Ù‚ÙˆÙ… Ú©Û’ اÙکار Ùˆ نظریات میں تبدیلی لانا چاÛتے تھے۔ مولانا Ø+الیؔ Ù†Û’ نیچرل شاعری Ú©Û’ متعلق جو بØ+Ø« Ú©ÛŒ ÛÛ’ اور اردو شاعری Ú©Ùˆ جس طرØ+ سوسائٹی Ú©Û’ تابع بتایا ÛÛ’ØŒ ÙˆÛ Ø+قیقت میں سرسید Ú©Û’ ÛÛŒ خیالات Ú©ÛŒ صدائے بازگشت ÛÛ’Û” 29 اکتوبر 1884Ø¡ Ú©Û’ ایک خط میں مولانا Ù…Ø+مد Ø+سین آزاد Ú©Ùˆ لکھتے Ûیں: ’’میری Ù†Ûایت قدیم تمنا اس Ù…Ø¬Ù„Ø³Ù Ù…Ø´Ø§Ø¹Ø±Û Ø³Û’ بر آئی ÛÛ’Û” میں مدت سے چاÛتا تھا Ú©Û Ûمارے شعرا نیچر Ú©Û’ Ø+الات Ú©Û’ بیان پر Ù…ØªÙˆØ¬Û ÛÙˆÚºÛ” آپ Ú©ÛŒ مثنوی ’’خواب٠امن‘‘ Ù¾Ûنچی۔ بÛت دل خوش Ûوا۔ درØ+قیقت شاعری زور سخن وری Ú©ÛŒ وادی ÛÛ’Û” اب بھی اس میں خیالی باتیں بÛت Ûیں۔ اپنے کلام Ú©Ùˆ اور Ø²ÛŒØ§Ø¯Û Ù†ÛŒÚ†Ø± Ú©ÛŒ طر٠مائل کرو۔ جس قدر کلام نیچر Ú©ÛŒ طر٠مائل Ûوگا اتنا ÛÛŒ Ù…Ø²Û Ø¯Û’ گا۔ اب لوگوں Ú©Û’ طعنوں سے مت ڈرو۔‘‘ Ø+الیؔ Ú©Ùˆ اسلام Ú©Û’ مدوجزر Ú©Û’ متعلق مسدس Ù„Ú©Ú¾Ù†Û’ پر انÛÙˆÚº Ù†Û’ ÛÛŒ راغب کیا تھا۔ اور ÛŒÛ Ù…Ø³Ø¯Ø³ Ù†Û ØµØ±Ù Ø§Ø±Ø¯Ùˆ ادب میں ایک گراں بÛا اضاÙÛ Ø«Ø§Ø¨Øª Ûوئی Ø¨Ù„Ú©Û Ø§Ø³ Ú©Û’ Ø°Ø±ÛŒØ¹Û Ù‚ÙˆÙ… Ú©Ùˆ ماضی کا Ù†Ù‚Ø´Û Ø¯Ú©Ú¾Ø§ کر اصلاØ+ Ø+ال پر Ø§Ù“Ù…Ø§Ø¯Û Ú©ÛŒØ§ گیا۔ اردو شاعری میں ’’شÛر آشوب‘‘ تو Ù„Ú©Ú¾Û’ گئے تھے لیکن قوم Ú©ÛŒ اصلاØ+ Ùˆ تربیت کا کام اس سے بالکل Ù†Ûیں لیا گیا تھا۔ مسدس Ù†Û’ شاعری Ú©Û’ ایک نئے استعمال Ú©ÛŒ Ø±Ø§Û Ø¯Ú©Ú¾Ø§Ø¦ÛŒ اور ÛŒÛ Ø«Ø§Ø¨Øª کر دیا Ú©Û Ø§Ø³ سے قوم Ú©Ùˆ خواب٠غÙلت سے بیدار کرنے کا کام لیا جا سکتا ÛÛ’Û” ان Ú©ÛŒ ’’نواÛائے جگر سوز‘‘ Ù†Û’ خود اردو شاعری کا مقام بلند کر دیا۔ Ø+الیؔ Ûر اول تھے اس قاÙÙ„Û’ Ú©Û’ جو اقبالؔ Ú©ÛŒ سرکردگی میں آگے بڑھا۔