بچوں کی تربیت میں والدین کی ذمہ داریاں تحریر : مولانا محمد اکرم
بچے کی ولادت سے لے کر آخر وقت تک والدین کو کن باتوں کا دھیان کرنا ہوگاکہ والدین اللہ تعالیٰ کے ہاں اس عظیم امانت کی خیانت کے جرم کے مرتکب نہ ہوں۔ہم سمجھتے ہیں کہ خیانت صرف پیسے میں ہوتی ہے ،ہمارے بچے ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی امانت ہیں اور نعمت بھی ہیں ،ہماری اول سے لے کر آخر تک کیا ذمہ داریاں ہیں ؟اس پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔پہلی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ بچے کا نام اسلامی رکھیں کیونکہ نام کا بھی بچے کی زندگی اور عمل پر اثر ہوتا ہے ،سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی بیٹی کا نام ’’عاصیہ‘‘ تھا عاصیہ کا معنی ہوتا ہے ’’نافرمانی کرنے والی‘‘جب اسلام کی دولت ملی تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیٹی کا نام اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت کی روشنی میں تبدیل فرما دیااور نام جمیلہ رکھ دیا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مشہور ومعروف صحابی ہیں ۔تین سال حضرت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں رہے ، آپ ﷺ کی صحبت میں انہوں نے پانچ ہزار تین سو چوہتر حدیثیں یاد کیں، آپؓکا پہلا نام’’ عبد الشمس ‘‘تھا اسکا معنی ہے ’’سورج کا بندہ‘‘جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں آئے ،اسلام کی دولت ملی اب عمر بڑی ہے لیکن بڑی عمر کے باوجود بھی انکا نام تبدیل کردیا ،اب ہم کہیں گے کہ مسلمان ہوگئے ،اللہ کے نبی کریم ﷺ کی صحبت میں آگئے اب کیا ضرورت ہے نام کے تبدیل کرنے کی کیونکہ اصل چیز تو عمل ہے؟ نہیں بھائی نہیں !یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے ،تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا نام تبدیل فرمادیا اور عبد اللہ یا عبد الرحمن رکھ دیااس بارے میں کئی اقوال ہیں زیادہ مشہور یہ ہے کہ عبد اللہ یا عبد الرحمن رکھ دیا ۔پہلی گزارش یہ ہے کہ بچوں کی اصلاح کے حوالے سے والدین کی ذمہ داریوں میں سے یہ ہے کہ بچے کا نام اسلامی رکھیں ۔بچے کی ولادت پرگھٹی دینا والدین کی ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔عام طور پر شہد یا کھجور یا کوئی اور چیز ڈال دی جاتی ہے ،حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ حضرات صحابہ ؓکے ہاں جب بچے پیدا ہوتے تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے گھٹی ڈلوائی جاتی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سیدنا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں جب یہ پیدا ہوئے تو حضرت عباس رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں اپنے اس بیٹے کوحضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے ،اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب مبارک انکے منہ میں ڈال دیا اور دعادی:{ اَللّٰہُمَّ عَلِّمْہُ الْقُرْآن۔ اَللّٰہُمَّ وَفَقِّھْہُّ فِیْ الدِّیْن۔ }
مفہوم: اللہ اس بچے کو قرآن کا علم دینا اور اسکو دین کی سمجھ دینا
اللہ نے اپنے نبی کی اس دعا کو قبول فرمایا، اسی وجہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ چھوٹے سے بچے تھے یعنی دس بارہ سال کے بچے تھے تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے حضرات ان کو اپنی مجلس میں اپنے ساتھ رکھتے ،بڑی بڑی عمر والے حضرات موجود ہوتے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی یہ اللہ کے پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا اثر تھا کہ قرآن مجیدکو سمجھنے کاا للہ تعالیٰ نے انکو وہ شرف عطاء کیا کہ جن باتوں کا جواب بڑے بڑے حضرات نہیں دے سکتے تھے ان باتوں کا جواب حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بڑی آسانی سے دے دیا کرتے تھے۔اگلی ذمہ داری یہ ہے کہ اگر ہو سکے تو بیٹے کی طرف سے ،بیٹی کی طرف سے عقیقہ کریں،عقیقہ کسے کہتے ہیں؟بیٹی ہو تو ایک بکراذبح کریں اور اگر بیٹا ہو تو دو بکرے ذبح کریںساتویں دن ، ذبح کر کے گوشت صدقہ کر دیں ،مسکینوں کو کھلا دیں،غریبوں کو کھلا دیں ،رشتہ داروں کو بھی کھلا سکتے ہیں اور خود بھی کھا سکتے ہیں ،اس سنت عمل سے بچے کی زندگی میں جو بلا ہے وہ ٹل جاتی ہے ،بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بکرا ذبح کرنا ہی ضروری ہے حالانکہ اگر کوئی غریب ہو اور بکرا ذبح نہ کر سکتا ہو تو اسکے لیے یہ ہے کہ تھوڑا بہت صدقہ کردے حتیٰ کہ ساتویں دن جو جھنڈ اتاری جائے تو اس جھنڈ کے وزن کے بقدر چاندی صدقہ کرنے کی ترغیب ہے مقصد یہ ہے کہ کچھ نہ کچھ صدقہ ضرور ہو۔اس سے اگلی ذمہ داری والدین کی یہ ہے کہ جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اسکو زبان سے نماز کی تلقین کریںاور جب دس سال کا ہوجائے تو نماز ہر صورت میں پڑھوائیں، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں سوال ہو گا ۔ ایک بات اور یاد رکھیں کہ جب بچہ بولنے لگے تو حدیث میں حکم ہے کہ بچے کو کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ الرَّسُوْلُ اللّٰہ پڑھائواسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ جس بچے کا پہلا کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہو اور مرتے ہوئے اسکو کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ نصیب ہو گیا تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اگر اس بچے کی ایک ہزار سال بھی عمر ہو تو اللہ تعالیٰ اسکی معافی کا انتظام فرمادیں گے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ والدین اپنی اولاد کو جو سب سے بہتر تحفہ دیتے ہیں وہ دین کی تعلیم ہے جس والد نے اپنے بیٹے یا بیٹی کو اچھا ادب سکھا دیا ،اچھا انسان بنا دیا جب اچھے انسان کا تصور آتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ جو پیسہ کمانے والا ہو ،پیسہ کمانا منع نہیں ہے لیکن پیسہ ہماری زندگی کا مقصد نہیں ہے پیسہ ایک ضرورت ہے لیکن اب مقصد بن گیا ہے حالانکہ انسان بننا مقصد ہے اور یہ بھی نہیں رہا ۔ایک خاص بات جس کا لحاظ کرنا بہت ضروری ہے وہ یہ کہ اپنی اولاد میں محبت میں برابری ہو بعض والدین اپنے بعض بچوں اور بچیوں سے محبت زیادہ کرتے ہیں اور بعض سے کم کرتے ہیں اس کا نقصان یہ ہو جاتا ہے کہ جن سے محبت کم کی جائے وہ بچے احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیںاور جس بچے اور بچی سے محبت زیادہ کریں گے وہ احساس برتری کا شکار ہو جائے گا اور اسکے دماغ میں آجائے گا کہ میںافضل ہوں اور اسکی وجہ سے عجب پیدا ہو جائے گا ،تکبر پیدا ہو جائے گا اور یہ بربادی کا ذریعہ ہے اور جس بچے اور بچی کی طرف توجہ کم کرینگے وہ احساس کمتری کا شکار ہو جائے گا، اندر ہی اندروہ کُڑھتا رہے گااور یہ بہت بڑی بیماریوں کا ذریعہ بن جائے گا اور کبھی یہ بیماری حسد کی صورت اختیار کر جائے گی اور حسد بہن بھائیوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیتا ہے ،جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی تھے جو حضرت یوسف علیہ السلام پر حسد کرتے تھے کیونکہ حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ انکے کچھ کمالات اور حسن کی وجہ سے پیار زیادہ کرتے تھے ، بھائیوں نے سوچا کہ اس بھائی کو باپ کی نظروں ہی سے غائب کر دیں، پھر وہ ساری لمبی داستان ہے باپ کی نظروں سے دور کرنے کے لیے انہوں نے کیا ترکیب اختیار کی کہ سیر کے بہانے لے جا کر کنویں میں پھینک دیااور والد سے کہہ دیا کہ بھیڑیا کھا گیاہے آخرقافلہ والوں نے کنویں سے نکالا ،بازار میں بکے ،قید میں گئے آخر دینداری کی وجہ سے قید میں عزت ملی پھر وزیر بنے ،بھائی قحط کی وجہ سے سائل بن کر آئے، لمبی داستان ہے جسکو بیان کرنے کا وقت نہیں ۔ جو والدین اپنے بچوں بچیوں میںفرق کرتے ہیںوہ یہ فرق کر کے عند اللہ بھی مجرم بنتے ہیں اور بچوں کے لیے نقصان یہ ہے کہ جن سے کم محبت کرتے ہیں وہ احساس کمتری کا شکار اور جن سے زیادہ محبت کرتے ہیں وہ احساس برتری کا شکار ہو جاتے ہیں لہٰذا والدین کو اپنے بچے بچیوں میں برابر سلوک کرنا چاہیے ۔ ایک اور خاص بات اولاد کے دین کی فکر کرناہے ۔صرف دنیا ہی کی فکر نہ ہو، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ فرماتے ہیں کہ آج کے والدین یہ تو سوچتے ہیں کہ ہمارے مرنے کے بعد ہمارے بچوں کا کیا بنے گا لہٰذا انکے لیے پراپرٹی ہو ،جائیداد ہو،مال ہو،آسائشیں ہوں ،بچوں کا رشتہ اچھی جگہ پر ہو جائے لیکن یہ نہیں سوچتے کہ جب یہ ہمارے بچے مریں گے تو مرنے کے بعد ان بچوں کا کیا بنے گا ؟لہٰذا والدین کی سب سے اہم ذمہ داری اولاد کو دیندار بناناہے ۔حضرت اسماعیل ؑ کی سوچ دیکھیں:
پارہ۱۶،سورہ مریم،آیت۵۵
ترجمہ: ’’اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم کرتے تھے‘‘
حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنے اہل و عیال ،اولاد کو نماز و زکوۃ کی دعوت دے رہے ہیں ،حضرت یعقوب علیہ السلام جب دنیا سے جانے لگے تو آخر میں بچوں سے کہہ رہے تھے ،سوال کر رہے تھے ’’اے بچو!میرے مرنے کے بعد تم عبادت کس کی کرو گے ؟والد کو دنیا سے جاتے جاتے بھی بیٹوں کے دین کی فکر ہے، تو والدین کی سب سے اہم ذمہ داری اور فریضہ اپنی اولاد کے دین کی فکر ہے ،کسی والد نے اپنی بچی کو ایسی جگہ بیاہ دیا جو ارب کھرب پتی تھا لیکن وہ لادین تھا اور بچی بھی لادین بن گئی تو یہ والدین سب سے بڑے مجرم اور قاتل شمار ہوں گے بچوں کو زمانہ جاہلیت میں کفار قتل کر دیاکرتے تھے ان سے بڑا ظالم شمار کیا ہے ان والدین کو جو اپنے بچوں کی دنیا کی فکر کرتے ہیں اور دین کی فکر نہیںکرتے،تو میرے بھائیو! ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ اپنی اولاد کے دین کی فکر کریں۔ صبح کی نماز کے بعد سونا یہ انتہائی نقصان دہ ہے بزرگوں نے لکھا ہے کہ صبح کی نماز کے بعد کا وقت انتہائی برکت والا ہے ،دعائوں والا ہے ،خالی ذہن ہوتا ہے جو پڑھیں گے دل و دماغ میں بیٹھ جائے گا، مغرب کو دیکھ کر ہمارا معمول بن گیا کہ رات دیر سے سوکر صبح نماز کے لیے اٹھتے ہی نہیں اور اگر اٹھیں بھی تو بچے بھی کیا، بڑے بھی کیا سب نماز کے بعد سوجاتے ہیں، سورج طلوع ہو رہا ہے ،نمازیں قضا ہو رہی ہیں ،تلاوت اور ذکر اور مطالعہ کا اہم وقت جا رہا ہے اس بات کا خیال کریں اور اس سے بچیں اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کا خیال کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ والدین کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک اہم بات اولاد کے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آنا ہے ،بعض والدین حد سے زیادہ سختی کرتے ہیں اور بچے پریشانی کی وجہ سے ذہنی مریض بن جاتے ہیں، اور والدین گھر میں غصے میں رہتے ہیںیہ طریقہ انتہائی غلط ہے اور بعض والدین اس قدر نرمی کرتے ہیں کہ بچوں کو والدین کا ڈر ہی ختم ہو جاتا ہے وہ الٹی سیدھی حرکات میں مبتلا رہتے ہیں ان کووالدین کا کوئی ڈر نہیںرہتا ،لاڈ پیا ر اتنا ہے کہ انکی غلط حرکتیں دیکھ کر بھی والدین روکتے نہیں ہیں اگر کہا جائے تو کہتے ہیں کہ نادان ہیں بچے ہیں ،ارے! بچے نادان ہیں تم تو نادان نہیں ہو ،بچے نادان ہیں والدین تو نادان نہیں ہیں اس لیے چاہیے کہ والدین معتدل انداز سے بچوں کے ساتھ پیار محبت بھی کریں تاکہ بچے والدین سے اپنی خواہش کا اظہار کر سکیں ،بچے اپنے والدین کے ساتھ دل لگی ،ہلکی پھلکی خوش طبعی بھی کریں ،ہاں مگر یہ نرمی اور یہ محبت اصلاح سے مانع نہ ہو، اگر کوئی غلط حرکت یا عادت بچوں میں دیکھیں تو فوراً والدین اس پر روک ٹوک کریں ، حدیث پاک میں آتا ہے:کہ تمہاری لاٹھی ہر وقت گھر میں لہراتی رہنی چاہیے، مارو نہ ہر وقت، بس ڈر رہنا چاہیے بچے کو کہ اگر میں بے وقت گھر جائوں گا ،اگر میں کسی غلط دوست کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا پکڑا گیا تو میرے والد سختی کریں گے ،بیٹی کو خطرہ ہو کہ اگر میں کسی آوارہ لڑکی کے ساتھ تعلق اور علیک سلیک کروں گی تو میری والدہ گرفت کریں گی اس قدر والدین کا ڈر رہنا ضروری ہے باقی محبت اور شفقت سے پیش آئیں ۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو پیار کر رہے تھے تو ایک صحابیؓ نے عرض کیا :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے تو دس بچے ہیں میں نے تو کبھی پیار نہیں کیا ،تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اگر اللہ تعالیٰ نے تیرے دل سے محبت اور رحم ختم کر دیا ہے تو میں کیا کروں ؟پیار بھی کرنا چاہیے لیکن یہ پیار انکی اصلاح سے مانع نہ ہو ۔والدین کا فرض ہے کہ خود بھی حلال حرام کاخیال کریں اور اولاد کو بھی حلال حرام کی تمیز سکھائیں، والدین کے فرائض میں سے اہم فریضہ اولاد کو حلال حرام کی تمیز سکھانا ہے اور سب سے بڑی بات اور سب سے اہم بات حلال رزق کا انتظام کرنا ہے ،حلال کھانا اپنی اور اولاد کی دینداری میں بڑا مؤثر ہے ،اگر ہم بچوں کوحرام کھلائیں گے تو میرے بھائیو!کیسے توقع رکھ سکتے ہیں کہ بچے دیندار بنیں گے ؟اگر مال ہے اور اسکی زکوٰۃ کا حساب کر کے والدین نہیں دیتے سونا ،چاندی ،گندم، چاول ہو ،اگر کوئی زمیندار ہے جو عشر نہ دیتا ہو ،میرے بھائیو! خیال کرو ناپ تول میں ہم ڈنڈی مار جاتے ہیں۔اگر آمدن ٹھیک نہیں ہو گی اور وہ آمدن خوراک میں جائے گی تو یاد رکھو !جو حرام کھائیں گے انکی آنکھیں حرام دیکھیں گی ،کانوں سے حرام سنیں گے ،زبان سے حرام بولیں گے ،ہاتھ حرام کی طرف جائیں گے ،اگر اولاد کو دیندار بنانا چاہتے ہیں تو والدین کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے روزگار پر نظر رکھیں،حلال مال ہو ،شبہ کے مال سے بچیں ۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے نانا کا واقعہ کیا ہے؟سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ رات کے وقت گشت کر رہے تھے،ایک گھر میں ماں بیٹی سے کہہ رہی تھی کہ دودھ میں پانی ملا دو ،بیٹی نے کہا کہ:اماں جان امیر المؤمنین نے منع کیا ہے ،تو ماں نے کہا کہ:امیر المؤمنین کو کیا پتا؟تو بیٹی نے کہا :امیر المؤمنین کا اللہ تو دیکھ رہا ہے ،یہ خوف خدا دیکھ کر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے صبح اپنے بیٹے عاصم کے لیے رشتہ مانگ لیا، بائیس لاکھ مربع میل میں جس کی خلافت کا پرچم لہراتا ہے آج رشتے کے لیے آیا کھڑا ہے ہم کہتے ہیں کہ رشتے نہیں ہوتے ،پریشانیاں ہیں ،میرے بھائی! پیسوں سے رشتے نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ سے تعلق ہونا چاہیے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ رشتے کے لیے گئے، اب بیٹے عاصم کے لیے رشتہ مل گیا اس سے جو بیٹی پیدا ہوئی اس کا آگے جو بیٹا ہے ان کا نام عمر بن عبد العزیز ہے ،تو عرض کر رہا تھا کہ حلال غذا کا اولاد کے نیک ہونے میں بڑا اثر ہو تا ہے ۔اس کے لئے اولاد کو بری صحبت سے بچائیں ،بچوں بچیوں کی سوسائٹی کیسی ہے؟اس بات کا بہت زیادہ لحاظ کرنا ہو گا ،حدیث پاک میں آتا ہے: ترجمہ :ہر شخص اپنے دوست کے دین پر ہے۔
ہم بھی دیکھا کریں کہ ہماری دوستی کن سے ہے؟تو میرے بھائیو! ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ہم دو تین باتوں کو زیادہ اہمیت دیں تو یہ ساری باتیں ہی اہم ہیں ایک بات بڑی اہم ہے وہ یہ کہ غذا حلال ہو اور ایک یہ بات بڑی اہم ہے کہ بچوں کی سوسائٹی پر نظر رکھیںخاص طور پر آٹھ، نو سال سے لے کر اٹھارہ ،بیس سال لڑکی اور لڑکے کی یہ ساری زندگی کے بگاڑ اور سنوار کا مدار ہے لیکن اچھے والدین تو وہ ہیں جو شروع سے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ بچوں کی نگرانی نہ کرنا، بچوں سے باز پرس نہ کرنا، ان کو آزاد چھوڑ دینا، اسی طرح بچوں کا زیادہ وقت کھیل کود میں لگ جائے اس سے بھی بچوں کے اخلاق تباہ ہوجاتے ہیں ۔اولاد کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور سنتوں پر عمل کرنے کی تر غیب دی جائے، میرے بھائیو !والدین کی ذمہ داری ہے کہ روزانہ تھوڑی دیر بچے کے سامنے جنت دوزخ تذکرے کیے جائیں، خود نہ بیان کر سکیںتو بزرگوں کی کتابیں لے لیں’’حیات صحابہ‘‘ ہے اسلامی تہذیب کی بہت سی باتیں ملیں گی۔ایک خاص بات کہ ہم سب اپنی اولاد کو گھر میں وقت نہیں دیتے، زیادہ تر والدین کی غلطی ہے کہ گھر میں وقت نہیں دیتے، والد اپنی جگہ مصروف ہے، والد ہ اپنی جگہ مصروف ہے ،بچوں کو کوئی ٹائم نہیں دیتے روزانہ کچھ نہ کچھ وقت بچوں کو دینا چاہیے، آدھا پونا گھنٹہ اپنے بچوں میں گزاریں، ان کو وقت دیں دل لگی کریں خوش طبعی کریںتاکہ ان کی اچھی بری حرکات وعادات سامنے آئیں،بچے سے پوچھیںآج تم نے سکول میں کیاکیا؟آج مدرسے میں تم نے کیا کیا؟بچی ہے تواس سے پوچھیں کہ آج تمہیں مدرسے میں کون کون سی بچیاںملیں؟بیٹا ہے تو اس سے پوچھیں کہ تمہیں آج کون سے بچے ملے؟ جب تم گئے تو استاد تھے کہ نہیں؟استادوں نے تمہیں کیا کہا؟ مدرسے والوں نے تمہیں کیا کہا؟ اس پوچھنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ بچے ان باتوں کو یاد کریںگے لہٰذا آپ بچوںکوٹائم دیںاور معمول بنائیں تھوڑاسا پوچھنا جاری رکھیں۔
والدین کی ایک اورذمہ داری یہ ہے کہ اولاد کے لباس پر نظر رکھیں، بچوں کو چھوٹی عمر میںہی لباس سنت کے مطابق پہنائیں۔
JazakAllah Nice sharing
Good Post
Behtreen Janaab.....