دنیا کا پہلا کیلنڈر
اخلاق احمد قادری
قدیم مصری دنیا کی پہلی قوم تھے جنہوں نے دریائے نیل کی طغیانیوں کے چڑھنے اور اترنے اور ستارہ شعریٰ یمانی (Sirius) کے ہر سال طلوع ہونے کے مشاہدے کی مناسبت سے دنیا کا پہلا سالانہ کیلنڈر ترتیب دیا۔ اگرچہ ان کا کیلنڈر قمری تھا مگر شمسی اور قمری سالوں کو ملا کر بنایا گیا تھا۔ پہلے پہل قمری مہینے ہی مستعمل تھے مگر مصر میں معاشرے کا انحصار زراعت پر ہونے کی وجہ سے ان کے ہاں شمسی تقویم پر توجہ دی گئی بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے ہاں قمری، شمسی اور ستارے شعریٰ یمانی کی تقویمیں بیک وقت مستعمل تھیں۔ پہلے پہل قمری سال کے مطابق سال کے 360 دن لکھے گئے تھے اور انہیں 12 مہینوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ جب مہینوں کے حساب سے موسموں میں ردوبدل ہونے لگا تو انہوں نے 5 دنوں کا اضافہ کر لیا اور سال کو 365 دن کا قرار دے دیا۔ سال کے 12 مہینے 30 دنوں پر مشتمل تھے مگر ہر سال کے آخر میں 5 دنوں کا اضافہ کر دیا جاتا تھا۔ یہ 5 دن مصر کے 5 دیوتاؤں سے منسوب تھے، جو یہ تھے؛ اوسیرس، آئسس، سیتھ یاست، نیفیتھائز اور ہورس۔ سال کے 12 مہینوں کے نام مصری زبان میں تھاتھ، پاڈپی، ایتھر، چوئک، ٹوبی، میچر، فامیوتھ، فاموتھی، پاچن، پاؤنی، ایپپ اور میسورے تھے۔ جب مصر پر یونانی قابض ہوئے تو یہ نام تبدیل ہو گئے تھے۔ تھاتھ کا مہینہ 19 اگست کو جب کہ آخری مہینہ میسورے 25 جولائی کو شروع ہوتا تھا۔ اس کیلنڈر میں 1461 سالوں کے بعد ایک سال کی کمی ہو جاتی تھی، اس لیے مصریوں نے ہر چوتھے سال ایک دن کا مزید اضافہ کر دیا۔ مصر میں ’’بارہویں خاندان‘‘ کے عہد حکومت میں 5 مزید دنوں کی شہادت ملی ہے۔ اس طرح ہر سال موسم اپنے مخصوص مہینے میں آتے تھے۔ شعریٰ یمانی ہر سال 70 دنوں کے لیے غائب ہو جاتا تھا۔ یہ آئندہ دریائے نیل میں سیلاب آنے سے ذرا پہلے ظاہر ہوتا تھا۔ دوسرے حیرت انگیز طور پر یہ ستارہ ایک پورے زمینی سال یعنی 365.25 دنوں کے بعد دوبارہ ایک ہی مقام پر نظر آتا ہے۔ اس تین شمسی، قمری اور شعریٰ یمانی تقویموں کے علاوہ مصر میں بادشاہ اپنی مرضی سے بھی کیلنڈر کا اجرا کرتے تھے، اس کے علاوہ کوئی اور تقویم ان کے ہاں رائج نہ تھی۔ سورف سوم یا سیسوٹرس سوم کے عہد کے ساتویں سال ستارا شعریٰ یمانی کے طلوع ہونے کا واقعہ مصر کی قدیم تاریخ میں درج ہے، ماہرین فلکیات نے اس سے اندازہ لگایا کہ یہ واقعہ 1876 ق م اور 1864 ق م کے درمیانی دور میں پیش آیا ہو گا۔ کافی غوروخوص کے بعد محققین 1872 ق م پر متفق ہو گئے۔ چند برس قبل سکاٹ لینڈ میں دنیا کے قدیم ترین کیلنڈر کی دریافت کا دعویٰ کیا گیا تھا البتہ اس کیلنڈر کی تفصیلات سامنے نہیں آ سکیں۔