وادی نیل میں تمدن کا آغاز
اخلاق احمد قادری
دجلہ و فرات کے کنارے اولین انسانی تہذیب کے ظہور کے ساتھ دوسری بڑی انسانی تہذیب نے دریائے نیل کے کنارے جنم لیا۔ دریائے نیل انسان کے نام قدرت کا تحفہ ہے۔ مشہور یونانی تاریخ دان ہیروڈوٹس نے خود مصر کو ’’تحفہ نیل‘‘ کہا ہے۔ یہ بات ہزاروں سال پہلے حضرت یوسفؑ کے زمانے میں بھی صحیح تھی اور آج بھی صحیح ہے کہ نیل کا پانی مصریوں کے لیے آب بقا سے کم نہیں۔ مصر کا 97 فیصد بے آب و گیاہ ہے۔ یہاں بارش بھی بہت کم ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ہر قسم کی زندگی کا دارومدار اسی دریا پر ہے۔ مصری اسی دریا کا پانی پیتے ہیں، یہی دریا ان کی زمینوں کو سیراب کرتا ہے اور زرخیز بناتا ہے۔ ملک میں نقل و حرکت کا آسان ذریعہ بھی یہی دریا ہے۔ اگر یہ دریا سوکھ جائے تو مصریوں کے لیے جینا محال ہو جائے۔ دوسرے ملکوں جیسے ہمارے ملک میں بھی کئی دریا اور ان کی باجگزار ندیاں ہیں مگر مصر کا صرف اور صرف ایک دریا ہے، نیل۔ دریائے نیل افریقہ کے صحراؤں میں آبی لکیر بناتا ہوا بحیرہ روم میں جا گرتا ہے۔ مصر کی سرحد میں داخل ہونے کے بعد دریائے نیل طویل خشک تنگ میدانی علاقے کو سیراب کرتا ہے۔ اس علاقے میں دریا کا طاس 10 ، 12 میل سے زیادہ چوڑا نہیں ہے۔ جب یہ دریا قاہرہ کے قریب پہنچتا ہے تو پہاڑیاں اس سے دور ہٹ جاتیں ہیں اور وادی کشادہ ہو جاتی ہے۔ آگے بڑھ کر دریا کئی شاخوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ اگلے چار سو میل کے سفر میں دریائے نیل کی یہ شاخیں توسی ڈیلٹا سیراب کرتی ہیں۔ ڈیلٹا کا علاقہ بہت زرخیز ہے۔ اس کی مٹی کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ یہ بڑی سرعت سے فصل اگاتی ہے جسے افریقہ کا سورج بہت جلد پکا دیتا ہے۔ جب تک ایک متحدہ سلطنت وجود میں نہیں آئی تھی اس وقت تک جنوبی اور شمالی مصر کی چھوٹی چھوٹی بادشاہتیں آپس میں اسی ڈیلٹا کے لیے برسرپیکار رہتی تھیں۔ مصر میں بداری کے مقام پر کھدائی سے جو مٹی کے برتن ملے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ پانچ ہزار سال ق م کے قریب وادی نیل کے زیریں حصے یعنی دہانہ نیل کے قریب انسانی بستیاں آباد ہو چکی تھیں۔ اسی طرح مصر میں مختلف مقامات سے ملتے والے اثریاتی شواہد کی بنیاد پر ماہرین نے زمانہ قبل از تاریخ کی مصری ثقافت کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ تسیان، بدریان، امراتین، گرزین، سیمانیان۔ پہلا دور تسیان کہلاتا ہے اور وحشت کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے۔ چوتھا دور گرزین ان سب ادوار میں اہم ہے کیونکہ مصری تہذیب کا آغاز اسی دور میں ہوا، اسی زمانے میں باب المندب یا بحیرہ قلزم کی راہ سے کئی عرب قبائل جو سمیریوں کے بھائی بند تھے، سرزمین مصر میں داخل ہوئے اور انہوں نے وادی نیل کے بالائی حصے میں بودوباش اختیار کی۔ پھر آہستہ آہستہ انہوں نے اپنی ایک ریاست قائم کر لی اور اسے وسعت دینے کے لیے دوسری ریاستوں کو فتح کرنا شروع کر دیا۔ ان کے بادشاہ یا سردار کا امتیازی نشان باز تھا۔ یہ باز تصویروں میں کندھوں پر سر کے پیچھے بیٹھا دکھایا گیا ہے۔ پہلے فرعون مصر تصور ہونے والے، مینیز کا تعلق انہیں لوگوں سے تھا۔ اسی بادشاہ نے وسطی مصر کے شامی النسل حکمرانوں سے خراج اطاعت وصول کیا اور اس کے بعد ڈیلٹا کے خطے کے تہنیوں، شامیوں اور فلسطینی گڈریوں کو مطیع کر کے وادی نیل میں ایک متحدہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ باز کے امتیازی نشان کو قائم رکھتے ہوئے تہنیوں اور شامیوں کے سرخ اور سفید تاج کو ملا کر ایک نیا تاج زیب تن کیا جس میں یہ دونوں رنگ شامل تھے۔ غالباً مینیز ہی کو مصر کے پہلے شاہی خاندان کا پہلا بادشاہ ہونے کا فخر حاصل ہے۔ مینیز سے پہلے ڈیلٹا کی سرزمین میں 10 بادشاہوں کی حکمرانی کا سراغ ایک مہرکی علاماتی تحریر سے ملا ہے۔ اس فہرست میں مینیز سے پہلے 10 دہرے نشان دیے گئے ہیں، جو دو تاجوں یعنی دو بادشاہوں کی علامت ہیں مینیز کے برسراقتدار آنے کا زمانہ بعض مؤرخوں نے 3200 ق م بتایا ہے جبکہ بعض اسے 4777 ق م بتاتے ہیں اور مینیز کا دوسرا نام نارمر مینیز (Narmer Menes) بتاتے ہیں۔ اس بادشاہ کی ریاست کا صدر مقام عبیدوز تھا جو تھیہیز کے قرب و جوار میں واقع تھا۔ مینیز نے تمام مصر کو اپنی قلم رو میں شامل کر کے ممفس کے مقام پر ایک نئے دارالحکومت کی بنیاد رکھی۔ مینیز ہی نے ایک زبردست بند تعمیر کر کے دریائے نیل کا رخ بدلا اور ایک نہر کے ذریعے اسے پہاڑوں میں قید کر دیا۔ اتنے قدیم زمانے میں دریا کا رخ بدلنا انسانی انجینئرنگ کا پہلا بڑا کارنامہ تھا۔