احادیث مبارکہ ۔۔۔۔۔۔۔ صلح کروانا
حضرت ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو تین چیزوں میں جھوٹ بولنے کی رخصت دیتے ہوئے سنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں ایسے شخص کو جھوٹا نہیں سمجھتا جو لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے کوئی بات کرتا ہے اس کا مقصد صرف اور صرف اصلاح ہوتا ہے۔ جو دوسرا وہ شخص جنگ کے موقع پر کوئی بات کرتا ہے۔ اور تیسرا وہ شخص جو اپنی بیوی سے کوئی بات کرتا ہے اور بیوی خاوند سے کوئی بات کرتی ہے۔
(سنن ابی داوُد ،جلد سوئم کتاب ادب :4921)
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا میں تم کو روزہ، نماز اور صدقہ خیرات سے افضل درجہ والی چیز نہ بتاؤں؟ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا: ضرور ارشاد فرمایئے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: باہمی اتفاق سب سے افضل ہے کیونکہ آپس کی نااتفاقی (دین کو) مونڈنے والی ہے (یعنی جیسے استرے سے سر کے بال ایک دم صاف ہوجاتے ہیں ایسے ہی آپس کی لڑائی سے دین ختم ہوجاتا ہے)۔
(ترمذی)
حضرت حمید بن عبدالرحمن ؒ اپنی والدہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے صلح کرانے کے لئے ایک فریق کی طرف سے دوسرے فریق کو (فرضی) باتیں پہنچائیں اس نے جھوٹ نہیں بولا( یعنی اسے جھوٹ بولنے کا گناہ نہیں ہوگا)۔
(ابوداوُد
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ارشاد فرمایا کرتے تھے: قسم ہے اس ذات عالی کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے والے دو مسلمانوں میں پھوٹ پڑنے کی وجہ اس کے علاوہ کوئی نہیں ہوتی کہ ان میں سے کسی ایک سے گناہ سرزد ہوجائے۔
(مسند احمد، مجمع الزوائد)
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ اپنے مسلمان بھائی سے تین راتوں سے زیادہ (قطع تعلقی کرکے) اسے چھوڑے رکھے کہ دونوں ملیں تو یہ اِدھر کو منہ پھیرلے اور وہ اُدھر کو منہ پھیرلے اور دونوں میں افضل وہ ہے جو (میل جول کرنے کے لئے) سلام میں پہل کرے۔
(مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کرے۔ جس شخص نے تین دن سے زیادہ قطع تعلق رکھا اور مرگیا تو جہنم میں جائے گا۔
(ابوداوُد)