ہماری ثقافت پر مغربی اثرات۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر : پروفیسر عثمان سرور انصاری

یہ کائنات کی رونقیں اور انسان کا وجود بذاتِ خود ایک لفظ’’کن‘‘ کی مرہونِ منت ہے ۔ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’کن ‘‘ہوجا تو’’ فیکون‘‘ ہوگیا۔ بس اس ایک لفظ کے ساتھ سب کچھ وجود میں آگیا۔ سب سے پہلے ﷲ پاک نے فرشتوں اور جنات سے کلام فرمایا ،حکم صادر فرمایا کہ انسان کو سجدہ ریز ہوجائو۔ابلیس نے سجدہ کی وجہ پوچھی تو حضرت آدم ؑ کو ﷲ پاک نے اسما کے علم سے نواز دیا۔اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑکو الفاظ عطا کئے ۔ یہ الفاظ کا سلسلہ تب سے انسانوں کے درمیان ابلاغ کا سب سے موثر ذریعہ کی حیثیت سے چلتا آرہا ہے اگر دنیا سے الفاظ کے وجود کی نفی کردی جائے تو انسان ہجوم میں کھڑا بھی شدید ترین تنہائی کا شکار ہو جائے ایسی تنہائی کہ جس سے انسان کی زندگی اور موت میں تمیز مشکل ہوسکتی ہے ۔

الفاظ اس قدر مقدس اور معتبر ذریعہ ابلاغ ہیں کہ ان کے ذریعے خالق و مخلوق کا آپس میں ربط قائم ہوا ۔ﷲ تعالیٰ نے اپنے نبیوں اور رسولوں کے ساتھ الفاظ کے ذریعے گفتگو فرمائی۔ ہر نبی اور پیغمبر پر نازل ہونے والے صحیفے اور آسمانی کتابیں بھی کسی نہ کسی زبان میں نازل فرمائی گئیں ۔نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ پر نازل ہونے والی کتابِ مقدس قرآن مجید بھی عربی زبان میں نازل ہوئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے، ترجمہ:’’بے شک ہم نے اس قرآن کو عربی (زبان) میں نازل کیا ہے تاکہ تم سمجھ سکو ‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ ﷲ تعالیٰ نے اپنا پیغام کسی نہ کسی زبان میں نازل فرمایا۔ اہلِ عرب چونکہ عربی زبان بولتے اور با آسانی سمجھتے تھے اسی لیے فرمایا کہ تمہا رے لیے ہدایت عربی میں نازل فرمائی کہ تم اچھی طرح سمجھ سکو تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو اگر پیغام ہماری ماں بولی میں آتا تو ہم ضرور سمجھ لیتے ایسے تو ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔

دنیا میں بیک وقت کئی زبانیں بولی جاتی رہیں ،اور بولی جاتی رہیں گی۔مختلف قوموں اورعلاقوں میں بولی جانے والی زبانوں کے متعلق بھی قرآن مجید کی سورۃ روم آیت نمبر 22میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے،

ترجمہ:’’ﷲ رب العزت نے لسانیات میں تغیرات کو رواں فرمایا ہے اور یہ خدا کی نشانیوں میں سے ایک ہے ‘‘

اس آیت مبارکہ کا پیغام واضح ہے کہ مختلف علاقوں اور نسلوں کی زبانوں میں جو تغیر ہے اس میں ﷲ تعالیٰ کی حکمت ہے اور یہ اسی کے حکم سے ممکن ہو پایا۔ یہ ﷲ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جس پر غور و فکر کرنا اور سچائی کے مختلف پہلوئوں کی کھوج کرنا انسان پر فرضِ عین ہے ۔انسان روزِ اول سے اپنے جذبات ،احساسات اور خیالات دوسروں تک الفاظ کی صورت میں پہنچاتا آیا ہے یہ الگ حقیقت ہے کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں الفاظ کی ہیت اور ادائیگی مختلف رہی جن الفاظ کو آج کا انسان سمجھ نہیں پایا ان الفاظ کو گذشتہ انسانوں کے حلق سے نکلنے والی بے ہنگم آوازوں کا نام دے دیا گیا مگر اس طرح بھی الفاظ کی ادائیگی سے کلی طور پر انکار ممکن نہیں کہ اس بے ہنگم آواز سے بھی الفاظ کی باز گشت سنائی دیتی ہے ۔انسان تو انسان جانور بھی اپنی بولی میں ایک دوسرے سے ابلاغ کرتے ہیں ۔آپ کسی ایک کوئے کے گھونسلے کے قریب جاکر دیکھیں وہ پل ہی پل میں بیسیوں کوئے اکٹھے کرلے گا۔جبکہ دوسری جانب کوا منڈیر پر چاہے سارا دن بولتا رہے ،مہمان آجائے تو آجائے کوئوں کی بھیڑ اکٹھی نہیں ہوتی ۔اس سے یہ سچائی کشید کرنا ذرا برابر مشکل نہیں کہ کوئے کی جو آواز ہمیں ہر بار ایک جیسی ہی سنائی دیتی ہے وہ دوسرے کوئوں کے لیے بالکل بھی ایک جیسی نہیں ہے ۔وہ اپنی آواز سے ایک دوسرے کے جذبات، احساسات اور پیغام کو سمجھنے اور سمجھانے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ جذبات اور پیغام کی یہ منتقلی جانوروں تک ہیں محدود نہیں انسان بھی جانوروں سے الفاظ کے ذریعے ابلاغ کرتا ہے ۔سرکس میں شیر کے کرتب دکھانا، گلی محلوں میں ریچھ کاناچ نچانا، بچوں کو بندر اور بکرے کی مداری سے خوش کرکے روزگار کمانا اور گھر میں موجود پالتو جانور مثلاً کتے اور بلیوں سے مختلف کھیل ،کھیل کر دل بہلانا سب کے سب افعال اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ الفاظ اس قدر طاقتور حقیقت ہے کہ جو محض انسانوں کو ہی ایک دوسرے کی مرضی کے مطابق آگاہ نہیں کرتی جانوروں کو بھی انسان کے قریب کر دیتے ہیں۔

نامور مورخ اور فلسفی برٹرینڈ رسل کے ان الفاظ سے اس بات کا اندازہ لگانا ذرا بھر بھی دشوار نہیں کہ الفاظ نہ صرف معلومات کی ترسیل کا ذریعہ ہیں بلکہ یہ اہلِ زبان کے ارفکا رکی ترسیل کا باعث بھی ہیں ۔اب چاہے کسی فرد کو افکار کی ترسیل کا ادراک ہو یا نہ ہو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا ۔اسی طرح مشہور ماہرِ لسانیات ایڈورڈ سیئپرکا کہناہے کہ ہر ثقافتی نمونہ اور ہر ایک سماجی روئیے کے عمل میں مواصلات کا عمل دخل ہوتا ہے چاہے وہ واضح ہو یا مخفی صورت میں موجود ہو اس کے اظہار کے لیے ذریعہ صرف الفاظ ہیں ۔حقیقت یہی ہے کہ جب کوئی لفظ ایک ثقافت اور سماج سے دوسری ثقافت اور سماج میں منتقل ہوتا ہے تو وہ دوسرے سماج اور ثقافت کے مطابق خود کو نہیں ڈھالتا بلکہ وہ اسی سماج اور ثقافت کو اپنی ثقافت اور سماج کے مطابق ڈھالنے کی مکمل قوت رکھتا ہے کہ الفاظ کی اپنی ایک الگ مکمل اور بااثر زندگی ہوتی ہے جو انسانوں کی زندگی کو یکسر بدل کے رکھ دیتی ہے۔

الفاظ کے نہ صرف معنی ہی ہوتے ہیں بلکہ الفاظ کی اپنی ایک تاثیر بھی ہوتی ہے جو الفاظ ادا کرنے والے کو اپنے زیرِ اثر کرلیتی ہے اور الفاظ استعمال کرنیوالے انسان کو محسوس تک نہیں ہو پاتا کہ وہ کس قدر اپنی ثقافت سے بے خبر ہو کر کسی اور ثقافت کا علمبردار بن چکا ہے۔ دنیا کی ہر ثقافت اپنے الفاظ کی ہی وجہ سے دوسری ثقافت پر فتح پاتی رہی ہے۔ اسی ثقافتی ہار اور جیت کی وجہ سے آج کئی قدیم ثقافتوں کے نشان تک باقی نہیں بچے اور جن کے کچھ مدہم سے نشانات انسان کی عقل تک رسائی کرنے میں کامیاب ہو پائے ہیں وہ بھی بس اس حد تک ہی کہ فلاں نامی ثقافت کا بھی کبھی دنیا میں وجود ہوا کرتا تھا اس سے مزید ابھی تک کچھ نہیں جس کی بڑی مثال پاکستان میں مدفون موہنجو داڑو اور ہڑپہ کی ثقافتیں ہیں۔

کسی بھی ثقافت اور زبان کے طاقتور ہونے کا انحصار اہلِ ثقافت وزباں کی طاقت پرمنحصر ہے۔ جس قدر کسی زبان کے بولنے والے دنیا پر اثر انداز ہوں گے اسی قدر ان کی زبان اور ثقافت بھی دنیا پر اثر انداز ہو گی۔ نمرود اور فرعون سے لیکر آج تک ہر طاقتور جو طاقت کے نشے میں بد مست ہوا وہی دوسروں کی ثقافت کوصفہ ہستی سے مٹانے کے در پے ہوگیا۔ دنیا میں ہونے والی اب تک تمام کی تمام جنگیں کسی کی ثقافت کی مٹانے کے لیے یا پھر اپنی ثقافت کو بچانے کے لیے لڑی گئی ہیں۔ ثقافت کی بقاء زبان کے الفاظ میں کہیں چھپی ہوئی ہے اسی لیے روزِ اول سے لے کر آج تک ہمیشہ دنیا کی طاقتور قوموں نے اپنے الفاظ کی مکمل اشاعت کے لیے بھر پور کوشش کی ہے چاہے اس کے لیے شدید جنگیں لڑنی پڑیں، لاشوں کے ڈھیر لگانے پڑے، کسی قوم کا معاشی قتل کرنا پڑے از مختصر کہ کچھ بھی کرنا پڑے اپنی ثقافت کی بقاء کے لیے کرگزرتے ہیں۔ موجودہ دور میں اس کی سب سے بڑی مثال امریکہ ہے جو پوری دنیا میں خوف و ہراس پھیلائے ہوئے ہے۔ سیدھی سی بات ہے اگر فرعونوں کی ثقافت وہ آج تک قائم رکھ پاتے تو آج وہ ظالم اور گمراہ کن حکمران نا گردانے جاتے بلکہ زمانہ جاہلیت کی طرح آج بھی نعوذ با اﷲ کہیں نا کہیں خدا مانے جاتے۔

ہاں پیغمبروں کا معاملہ الگ ہے یہ اﷲ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہیں جو اپنے اپنے زمانے میں اﷲ پاک کی پسند کردہ ثقافت کی تبلیغ کرتے رہے ہیں ۔اس علم کی ترسیل اور اشاعت کی کوشش کرتے رہے ہیں جس کا آغاز حضرت آدمؑ کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کے کلام سے ہوا جس میں حاکمیت اور تمام تر اختیارات کا واحد مالک اﷲ تعالیٰ ہے۔ اسی لیے عرب کی سرزمین کو ﷲ پاک نے اپنی محبوب ترین ہستی حضرت محمد ﷺ کے وجودِ اقدس سے نواز تو آپﷺ نے بھی تبلیغ پر بہت زور دیا اور اپنے پیغام کی ترسیل اور ابلاغ کے لیے طاقت کا راستہ نہیں بلکہ اخلاق و کردار کی خوبی اور کاملیت کا راستہ اپنانے کا حکم دیا ۔آپﷺ اور آپﷺ کے اصحابؓ کی محنتوں سے اسلامی ثقافت ناصرف پورے عرب پر فاتح ہوئی بلکہ پوری دنیا کو متاثر کرنے لگی اسی سلسلے کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے اولیاء اﷲ اور صوفیائے اکرامؒ نے دنیا کے مختلف خطوں میں اسلامی ثقافت کی داغ بیل ڈالی ۔

اولیاء اﷲ اور صوفیاء اکرامؒ نے جب برصغیر پاک و ہند میں قدم رکھا تو یہ ثقافت بت پرستی اور دیگر غلط عقائد پر استوار تھی ۔مگر صوفیاء اکرامؒ کی مسلسل محنت اخلاق و کردار اور علمی برتری کی وجہ سے یہاں کے لو گ تیزی کے ساتھ عربی و فارسی زبان کی طرف راغب ہوئے اور رغبت کے اسی سلسلے کے باعث دنیا کے اس خطے میں آہستہ آہستہ اسلامی ثقافت کی روشنی جگمگانے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا ۔یہ خطہ دنیا میں اپنی خوشحالی کی وجہ سے شہرت حاصل کرنے لگا یہاں کہ عوام ہندو ثقافت کی اونچ نیچ سے آزاد ہو کر اسلامی ثقافت کی مساوات اور بھائی چارے کی فضا میں آزادانہ سانس لینے لگے۔برصغیر کی زبان سنسکرت تھی ،بعد ازاں عربی و فارسی کے غالب آنے کے باعث ایک نئی صورت اختیار کرگئی جسے اردو کا نام دیا گیا ۔تبلیغ کیوںکہ عربی لفظ بلغ سے ماخوذ ہے جس کی جمع ابلاغ ہے اور ابلاغ اس وقت تک موثر نہیں ہو پاتا جب تک اس میں نرمی اور شائستگی نہ آئے ۔یہی وجہ تھی کہ جو بھی اس خطے کے باشندوں میں سے اسلام قبول کرتا اس کے کردار اور اخلاق میں عجیب سا حسن اور دلکشی پیدا ہوتی جاتی یہی وجہ تھی کہ مسلمان اس خطے کے تقریباً ایک ہزار سال تک حکمران رہے۔

مولوی فیروز الدین اپنی شہرہ آفاق اردو لغت جامعہ فیروز اللغات میں اردو زبان کی تشکیل میں عربی اور فارسی کے الفاظ کی کثیر تعداد میں شمولیت اور ارتقا کے بارے میں لکھتے ہیں ’’انسان کا شاید سب سے بڑا تخلیقی کارنامہ زبان ہے ۔ہم در اصل الفاظ کے ذریعے اپنی ہستی کا اور اس رشتے کا اقرار کرتے ہیں۔ جو انسان نے کائنات اور دوسرے انسانوں سے قائم کرکھا ہے انسان کی ترقی کا راز بھی الفاظ میں پوشیدہ ہے کیوں کہ علم کی قوت کا سہارا الفاظ ہی ہیں ‘‘۔مولوی فیروزالدین کے ان الفاظ سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے بعد اردو ایک مضبوط اور مقبول زبان کی صورت میں ابھر کر سامنے آئی جو کہ اسلامی ثقافت کی آئینہ دار تھی ۔ برصغیر میں مسلمان حکمرانوں کی سہل پسندی کے باعث جب انگریز طاقت کے بل بوتے پر یہاں حکمران ہوئے تو انہوں نے انگریزی زبان کے فروغ کی کوششیں شروع کردیں کہ زبان ہی اپنی ثقافت کی پاسدار ہوا کرتی ہے ۔اپنے مقصدر میں کامیابی کی خاطر انگریزوں نے’’فورٹ ولیم کالج‘‘ کی بنیاد رکھی تاکہ عمومی طور پر برصغیر کی اور خصوصی طور پر مسلمانوں کی ثقافت کو سمجھا جاسکے اور بعد ازاں اہلِ ثقافت کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی ثقافت کی فتح کے لیے راہ ہموار کی جاسکے ۔انگریز اس مقصد میں کافی حد تک کامیاب بھی رہے۔

اردومیں انگریزی کا استعمال علی گڑھ تحریک سے شروع ہوا اس تحریک کا مقصد انگریز اور مسلمانوں کے درمیان حائل فاصلوں کو کم کرنا اور مسلمانوں کوجدید تعلیم کی طرف راغب کرنا تھا غالب کے لکھے ہوئے خطوط میں بھی انگریزی کے الفاظ ملتے ہیں۔ اردو میں انگریزی الفاظ کے استعمال کا رجحان اس کے بعد بڑھتا ہی چلا گیا اور آج تک یہ سلسلہ ہر گزرنے والے دن کی نسبت آنے والے دن میں تیزی سے بڑھتا ہی چلا آرہا ہے ۔انگریزوں سے اسلام کے نام پر وطن عزیز پاکستان حاصل کر لینے کے باوجود یہ سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ پاکستان میں آج ہر خاص و عوام انگریزی بول کر اپنے آپ کو پڑھا لکھا منوانے کی کوشش میں مگن ہے ۔یہاں تک کہ پاکستان کے شاعر اور ادیب بھی ا نگریزی کی اس وبا سے بچ نہیں پائے۔ پروین شاکرسمیت کئی شاعروں کی متعددنظموں کے عنوان انگریزی الفاظ سے لیے گئے ہیں۔ بہت سے شاعر اور ادیب حضرات اپنی علمی فضیلت ثابت کرنے کے لیے انگریزی الفاظ کا بکثرت استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔پاکستان میں آج تک دفتری و سرکاری دستاویزات کے لیے انگریزی زبان استعمال کی جاتی ہے۔ جبکہ 1973کے آئین میں اس بات کی ضمانت دی گئی تھی کہ 15سال کے اندر اندرپاکستان کی دفتری اور سرکاری زبان بھی اردو کردی جائیگی مگر یہ وعدہ ابھی تک وفا نہیں ہوسکا۔ قطعاً ضروری نہیں سمجھا گیا کہ اس سنگین مسئلے کی طرف تھوڑی توجہ دی جاسکے۔ اپنی ثقافت کی بقاء کی کچھ فکر کی جاسکے کہ دوسری ثقافت سے صرف الفاظ ہی منتقل ہو کر نہیں آتے بلکہ وہ پوری کی پوری ثقافت ہی اپنی ثقافت کی طرف کمبل میں گھسنے والے اونٹ کی طرح منتقل ہوجاتی ہے جو ایک دن آپ کی ثقافت کو پرے ہٹا کر تاریخ کے اوراق میں دفن کرآتی ہے۔ اپنی ثقافت کی بقاء اور معاشرتی بگاڑ سے بچنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم ابھی سے انگریزی الفاظ کے اردو زبان میں براجمان ہونے کی طرف توجہ کریں اور اس عجیب و غریب انہونے عمل کا کوئی سدِ باب کریں نہیں تو واپسی کا کوئی رستہ نہیں بچے گا۔

اپنے معاشرے کا اگر غیرجانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو 99فیصد مسائل کی وجہ اپنے الفاظ کی جگہ انگریزی الفاظ کا استعمال ہے ۔اگر کوئی محض 100سال پہلے یہاں رہنے والا انسان دوبارہ ادھر آ نکلے تو یقینا لوگوں سے پوچھتا پھرے گا کہ ادھر ایک قوم آباد ہوا کرتی تھی جس کی زبان اردو تھی کہ آج ہم وہ رہے ہی نہیں۔ ہمارا رہن سہن، چال چلن، رشتے اور رشتوں سے محبت کا توازن پوری طرح بگڑ چکا ہے ۔ہمارے حجام ہیئر ڈریسر، کپڑے بیچنے والے کلاتھ مرچنٹ، دکاندار جنرل سٹورکے مالک اور دھوبی ڈرائی کلینرز بن چکے ہیں ۔ہمارے سرائے کی بجائے جگہ جگہ ریسٹورنٹ کھلے ہوئے ہیں ۔نان بائیوں کی جگہ بیکرز نے لے لی ۔ آج ہم کھانا نہیں کھاتے بلکہ ڈنر، لنچ اور بریک فاسٹ کرنے لگے ہیں۔ ہم مدرسے سے ڈرتے ہیں اور سکول جانا ہمارا شوق ہے۔ ہمیں جامعہ کی کچھ خبر نہیں اور یونیورسٹیز میں داخلے کے لیے رشوت اور سفارش کے لئے تیار ہیں۔ ہم بس میں سفر کرتے ہیں کار سے دوسرے کی معاشرتی حیثیت کا اندازہ کرتے ہیں۔ ہم لوگ گھروں میں رہنے کی عادت بھول چکے ہیں۔ آج ہم فلیٹس، ولاز یا پھر رینٹ پر رہتے ہیں ۔ ہماری زندگی سے آرام و سکون غائب ہوچکا ہے البتہ آج ہم بس ریسٹ کرتے ہیں۔ ہم کپڑے نہیں پہنتے بلکہ جینز، شرٹس، ٹروزرز اور شارٹس پہننے لگے ہیں پھر بھی ہمارا کچھ نہیں بدلا پھر بھی ہم انگریزوں کی ثقافت سے نفرت کرتے ہیں کہ وہاں فحاشی زیادہ ہے ہم اپنی ثقافت سے پیار کرتے ہیں کہ اس میں عزت و آبرو ہے۔

ہم نے پڑھنا ہو تو استاد کی بجائے ٹیچر تلاش کرتے ہیں، بیمار ہوجائیں تو طبیب کی بجائے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔ ڈاکٹر بھی اگر سپیشلسٹ مل جائے تو سونے پے سہاگہ ہے ۔ہم برگر کھاتے ہیں مہمانوں کی خدمت ہماری عزت کم کرتی ہے ہم مہمانوں کو پیزا سرو کرتے ہیں۔ ہم دوا کی گولی کو اپنے بچوں کا محافظ سمجھتے ہیں۔ ہم گیند بلے کی بجائے کرکٹ کھیلنے لگے ہیں۔ہاکی فٹ بال کھیلنا ہمارا شوق ہے۔ پیدا چلنے پھر نے میں ہمیں شرم محسوس ہوتی ہے مگر ہم واک کرتے ہوئے اپنے ماڈرن ہونے پر پھولے نہیں سماتے ہم ٹی وی دیکھتے ہیں ،اخبار تو کب کے ہمارے ملک سے ختم ہوچکے اب ہم نیوزپیپرز پڑھتے ہیں ۔ یہ زمانہ قدیم کی باتیں ہیں یہ ہمیں کیا ہوگیا ہے ہم کیا کررہے ہیں۔ ہم الیکٹرک سائیکل پر ہی دوڑتے جاتے ہیں کہ ہمارے سانس پھولے ہوئے ہیں۔ ہم تھک کر نڈھال ہوچکے ہیں پسینے سے شرابور لیکن پھر بھی اپنے ہی کمرے میں اسی جگہ کھڑے ہیں ہماری سب کی سب محنت بیکار کی محنت ہے اور ہاں مجھے یاد آیا بیکار تو تب ہو گی جب ہم محنت کریں گے ہم تو سٹرگل کرتے ہیں محنت بالکل بھی نہیں۔

ہماری ماں جی شاید اپنی ماں جی کے پاس رہتی ہیں۔ ہمارے ساتھ تو موم رہتی ہیں ہمارے ابو ڈیڈی بن کر ہم سے بالکل انجان ہوچکے ہیں۔ ان کو ہم سے زیادہ اختیاراور پیسے جمع کرنے کی فکر ہے ۔ہماری خالہ، مامی، چاچی، پھپھو سب کی سب آنٹی کے پرچم تلے ایک ہو چکی ہیں سبز ہلالی پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہوں نہ ہوں مگر آنٹی کا پرچم اپنا رنگ دکھا گیا ہے۔ ہمارے چاچے ،مامے ، پھوپھا اور تایا سب سے سب انکل بن گئے اور پھر بھی ہم یورپ سے اس لیے بہتر ہیں کہ وہاں رشتوں کی پہچان ہی نہیں لیکن ہمارے ہاں ہر رشتے کا اپنا الگ الگ ایک مقام ہے۔ ایک ایسی غلط فہمی ہے جسے ہم دور کرنے سے بھی ڈر سے گئے۔ ہیں ہم کسی کا جتنا بھی نقصان کردیں جتنی بھی تکلیف پہنچا دیں لیکن معافی نہیں مانگتے کہ اس سے ہماری ناک نیچی ہوتی ہے جبکہ بچے بچے سے ہم مسکرا مسکرا کر سوری کہہ رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے دل پتھر کے ہو گئے ہیں ،ہمیں محبت نہیں ہوتی اس محبت کے تو ہم معنی تک سے واقف نہیں البتہ ہمارا دل لو میں ضرور فعال کرتا ہے۔ ہم اتنے باشعور معاشرے میں رہ رہے ہیں ،ہماری عزت کا معیار یہ ہے کہ یہاں کسی کی جرات نہیں کہ وہ کسی عورت کو راکھیل کہہ سکے۔ ہاں، گرل فرینڈ بہت اچھی چیز ہے جس پر پورے معاشرے کو اعتراض ہی نہیں ۔ آج کئی عورتیں بوائے فرینڈ بنانے میں نا صرف خوشی محسوس کرتی ہیں بلکہ سٹیٹس کی علامت سمجھاجاتا ہے۔یہ کیا ہورہا ہے، کیوں ہورہا ہے یہاں کسی کے پاس فرصت ہے کہ ذرا دیر ٹھہرکر سوچے کہ اس بد تمیزی کا راستہ روکنے کی کوشش کرے ۔ارے نہیں ،نہیں اس میں غلط ہی کیا ہے ہم کب شرم و حیا کی حد کو پار کرتے ہیں ہم تو ماڈرن فیشن کرتے ہیں اس میں کونسی عجیب بات ہے فیشن تو بدلتا ہی رہتا ہے۔ہمارے گھروں میں ماں بہن کی جگہ موم اور سِس نے لے لی ہے ۔یہی وجہ ہے آج نوجوانوں کو ٹک ٹاک سمیت دیگر سوشل میڈیا پر سرعام گالی دینے اور لینے میں شرم ہی محسوس نہیں ہوتی تو بھائی سیدھی سی بات ہے جو عزت اور غیرت بہن سے وابستہ ہے وہ سِس سے تو نہیں نا۔

آج ہم شادیاں نہیں کرتے میرجزکرتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں بیویاں نہیں مسز آتی ہیں اور یہ جو میڈیا پر بیکار میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح پر بحث ہوتی رہتی ہے ۔ہمیں پریشان کرتی رہتی ہے اور ارے بھائی! اس سے پوچھو تو سہی کون دیتا ہے طلاق ہم تو جانتے بھی نہیں طلاق کو۔ ہم تو بس سیپرٹ ہوتے ہیں۔ لو جی کرلو بات اب سمجھائو ان کو کہ طلاق اور سیپریشن ایک ہی بات ہے۔ کہیں گے بات کرتے ہو بتائو تو بھلا کتا اور ڈوگی ایک ہوسکتے ہیں وہ ’’ک‘‘ سے لکھا جاتا ہے اور یہ ’’ڈ‘‘سے ناپاک تو کتا ہے اور ہم کب گھروں میں پالتے ہیں۔ ہاں ڈوگی کی بات تو الگ ہے وہ ہمارے گھروں میں باورچی خانوں میں بستر میں ہر جگہ دندناتا پھرتا ہے اور رہی بات کتے کی تو ایسی ناپاک چیزیں ہم گھروں میں تو کیا گائوں میں نہیں رہنے دیتے۔اس قدر شدید معاشرتی بگاڑ کی سب سے بڑی اور اہم وجہ الفاظ کی تبدیلی ہے کہ الفاط اپنے اندر نہ صرف وسیع معنی رکھتے ہیں بلکہ اپنے دامن میں صدیوں کی ثقافت اور اس کی تاثیر کو بھی سموئے ہوئے ہوتے ہیں جب رشتوں کے نام بدل دیے جائیں تو ان کی شناخت بدل جاتی ہے ان سے وابستہ داستانیں دم توڑنے لگتی ہیں بقول عباس تابش

ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش

میں نے ایک روز کہا تھا کہ مجھے ڈر لگتا ہے

ماں کے پائوں تلے جنت ہے ،ماں کی دعا جنت کی ہوا جیسے ہزاروں محاورے ، اشعار، افسانے اور ماں کی شان اور تقدیس میں لکھا گیا سب کا سب اسلوب صرف ایک لفظ ممی سے بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔ اولاد کے لیے قربانیوں کی عظیم داستانیں ابو سے وابستہ ہیں ڈیڈی تو انجان لفظ ہے ۔اس کی تاثیرسے ہم واقف ہی نہیں تو پھر کیسے ہم ماں باپ سے وہ ماضی والا پیار جتا سکتے ہیں اور رہی بات ممی ڈیڈی الفاظ کی تاثیر کی تو اہلِ علم یورپ بھر میں بڑھتی ہوئی اولڈ ایج ہومز کی تعداد سے بخوبی واقف ہیں جن الفاظ کے وارث اپنے الفاظ کے تقدس سے واقف نہیں وہ کسی دوسرے کو کیا متاثر کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ہاں بھی بڑے بزرگ نوجوانوں کی طرف سے کیے جانے والے برتائو سے نالاں ہیں ۔معاشرے میں بڑھتی ہوئی خاندانی بگاڑ کی وجہ بھی الفاظ کی یہی تبدیلی ہے کہ الفاظ کے معنی کا دامن بھرنے کے لیے مفکرین اور ادیبوں نے جو صدیوں سے محنت کی ہم نے ایک لمحے میں بے اثر کرکے رکھ دی۔ بھائی بھائیوں کی باہیں ہیں اور بہنیں گھر کی رونق ہیں جیسے حقائق ہماری ثقافت کی گود میں پروان چڑھے ہیں ان کی تاثیر تاریخ میں بھائی اور بہن کے الفاظ میں پوشیدہ ہے نہ کہ برو اور سِس کے الفاظ میں معاشرے میں بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح کی بھی سب سے بڑی وجہ میرے مطابق یہی الفاظ کی تبدیلی ہے وگرنا طلاق دینا اتنا بھی آسان کام نہیں ہے جبکہ ہم نے بچپن سے کئی کہانیاں سن رکھی ہیں کہ جو مرد طلاق دیتا ہے اور عورت طلاق لیتی ہے ان کی غیرت میں کمی ہوتی ہے یا طلاق دیتے وقت لوگ آبادیوں سے بہت دور چلے جایا کرتے تھے کہ کہیں ان کے یہ الفاظ بولنے کے باعث بستی پر کوئی عذاب نہ آجائے۔ یہ تمام کے تمام احساسات اور خوف کو ختم کرنے کے لیے آج معاشرے نے ڈائیورس اور سیپریشن جیسے لفظوں میں حل تلاش کرلیا ہے ۔اب طلاق دیتے اور لیتے ہوئے نہ تو کسی کی غیرت میں کمی واقع ہوتی ہے اور نہ کسی قسم کے عذاب سے ڈر لگتا ہے کہ یہ سب حقائق تو طلاق کے لفظ سے وابستہ ہیں۔کئی معاشرتی برائیاں بھی الفاظ کے اسی بدلائو کے باعث آج معاشرے میں پنپ رہی ہیں۔ ہماری ثقافت تیزی سے روبہ زوال ہے۔ اگر ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ثقافت سنجیدگی سے بچانا چاہتے ہیں تو ہنگامی بنیادوں پر حکومتی سطح پرالفاظ کی منتقلی کے اس رجحان کا سدِ باب کرنا ہوگا۔ وگرنا یاد رہے کہ کئی ثقافتیں تاریخ کی گرد میں دفن ہوچکی ہیں جن کاآج نام تک بھی محفوظ نہیں۔