ننھے پھول ’’چائلڈ لیبر‘‘ کی نذر .............. تحریر : آمنہ وحید
بچے پھول جیسے ہوتے ہیں،ان کے معصوم چہرے سورج کی پہلی کرن سے مشابہت رکھتے ہیں۔ بچوں نے پڑھ لکھ کر ملک کے مستقبل کا معمار بننا ہوتا ہے لیکن یہی معصوم پھول ڈالی سے ٹوٹ کر گلیوں کی دھول بن جاتے ہیں جس کی ایک صورت چائلڈ لیبر کی ہے۔چائلڈ لیبرسے مراد کم سن بچوں سے محنت مشقت اور ملازمت کروانا ہے۔
یعنی بچے کو اس کے حق کی تعلیم و تفریح سے محروم کر کے کم عمر ی میں ہی کام پر لگا دیا جائے۔ چائلڈ لیبر بچوں کے مسائل میں اہم ترین مسئلہ ہے۔ عالمی سطح پر اس کے اعداد و شمار بہت تشویشناک ہیں۔ بہت سے بچے سخت مشقت والے کام کرتے ہیں جیسے کہ کانوں اور کیمیکلز فیکٹریز ،کھیتی باڑی اور خطرناک قسم کی مشینری کے ساتھ کام کرنا۔
چائلڈ لیبر کے بہت سے اسباب ہیں جن کی وجہ سے والدین اپنی کم سن اولاد کو کام کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں عام طورپر وہ والدین جو بچوں کی تعلیم کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے یا کسی وجہ سے خود کمانے کے قابل نہیں رہتے ، ان کی کمائی کم ہوتی ہے یا زیادہ افراد کی کفالت ان کے ذمے ہوتی ہے تو ایسے میں یہ والدین اپنے بچوں کو چھوٹی عمر میں ہی کام پر لگا دیتے ہیں۔ ان وجوہات کی وجہ سے بہت سے بچے تعلیم جیسی نعمت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ بعض اوقات والدین کی تعلیم اور شعور میں کمی بھی اس مسئلے کا سبب بنتی ہے۔ بعض لوگوں کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ تعلیم کا مقصد رزق کمانا ہوتا ہے۔ پس یہ والدین بچوں کو بچپن سے ہی کسی فیکٹری، مکینک یا کسی اور ہنرمند کے پاس بطور شاگرد چھوڑ دیتے ہیں تاکہ بچہ جلد روزگار کمانے کے قابل ہو سکے۔
آج کل سبزی منڈیوں، ہوٹلز ا ورورکشاپس سے لیکر مختلف انڈسٹریز چائلڈ لیبر کا گڑھ ہیں۔ سڑکوں پر گشت کرتے بچے گردشِ حالات کے باعث مارے مارے پھرتے ہیں ہاتھوں میں کتابوں کی بجائے اوزار ہوتے ہیں۔ کیا یہی ان بچوں کا مستقبل ہے؟ان کیلئے کسی کو تو آواز اٹھانا ہو گی۔۔کوئی تو ان کے حق کیلئے بولے؟کب تک یہ معاشرہ خاموش رہے گا اور اسی طرح یہ ننھے پھول مرجھاتے رہیں گے۔
ہمیں چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے مربوط حکمتِ عملی کی ضرورت ہے اس کیلئے حکومت کو منصوبہ بندی کرنی ہو گی جب حکومت روز گار تمام لوگوں کو مہیا کرے گی تو بچے سکول جائیں گے لیکن یہاں نوکریاں نا پید ہیں جب ملک میں روزگار ہی نہیں ہے۔مزدور بے کار بیٹھے ہیں،نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لیے پھر رہے ہیں تو پھر غریب کیا کریں۔۔ وہ پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے اپنے بچوں کو اِن سرمایہ داروں کے ہاں کام پہ بھیج دیتے ہیں اور پھر نسل در نسل یہ کام چلتا جاتا ہے۔اور یہ ننھے پھول ہاتھوں میں کاغذ اور قلم کی بجائے مٹی سے اپنی تقدیر لکھنے لگتے ہیں۔ حکومت سمیت عوام کا فرض ہے کہ وہ اس مسئلے کا مستقبل بنیادوں پر کوئی حل سوچیں ورنہ یہ ننھے پھول حالات سے دلبرداشتہ ہوکر جرائم کی راہ پہ چل پڑیں گے۔اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے ہمیں مل کر ننھے پھولوں کی آبیاری کرنی ہے تاکہ یہ ملک کی ترقی کے لیئے کام کریں ۔