سیاسی باغی اور عمران خان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صابر شاکر
سوئٹزرلینڈ سے وطن واپسی پر وزیراعظم عمران خان کو فوری طور پر اپنی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اندر اور اپنی صوبائی حکومتوں‘ پنجاب‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان ‘کے خلا ف سیاسی بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑااور انہیں سب سے پہلے لاہور اور پھر کراچی کے ہنگامی دورے پر جانا پڑا۔وزیراعظم خان کو ڈیووس میں ہی صورتحال سے آگاہ کردیا گیا تھا کہ عاطف خان‘ شہرام ترکئی اور شکیل احمد مل کر وزیراعلیٰ محمود خان کے خلاف منظم منصوبہ بندی کررہے ہیں اوردیگر ارکان کو بھی بغاوت پر اُکسا رہے ہیں۔باغی گروپ کے رہنماؤں نے تقریباً بیس سے زائد ارکانِ کے پی کے اسمبلی کو کھانے کی دعوت پر بلایا‘ لیکن چند ارکان نے شرکت کی اور مدعو کیے جانے والے اکثر ارکان نے باغیوں کا ساتھ دینے سے انکار کردیا‘نا صرف انکار کیا‘ بلکہ اکثریت نے اس کی اطلاع وزیراعلیٰ محمود خان کو اور کچھ نے براہ راست وزیراعظم کو بھی دے دی۔سول انٹیلی جنس ادارے نے بھی صوبے میں باغی ارکان کی حرکات وسکنات پر رپورٹ وزیراعظم کو ارسال کی۔وزیراعلیٰ محمود خان اور پرویز خٹک نے بھی وزیراعظم عمران خان کو ایسی ہی اطلاعات دیں‘جو پہلے سے عمران خان کے پاس پہنچ چکی تھیں۔وزیراعظم کو اس بات کا کافی رنج اور غصہ تھا کہ ایسے وقت میں جب وہ ڈیووس میں صدر ٹرمپ سمیت عالمی رہنماؤں اور بڑی بڑی کاروباری شخصیات اور عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز و محور بنے ہوئے تھے اور ان کی گورننس کی تعریفیں ہورہی تھیں‘ وہ کشمیر اورفیٹف سمیت دیگر ایشوز پر پاکستان کا مقدمہ دنیا بھر کے سامنے پیش کررہے تھے‘ ایسے میں ان کے سب سے مضبوط سیاسی گڑھ پشاور سے انہی کے انتہائی قابل بھروسہ رہنما اپنے کپتان کی ہدایات کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے ہی وزیراعلیٰ کے خلاف بغاوت کررہے ہیں اور اتنے جلدی میں ہیں کہ ان کی وطن واپسی کا بھی انتظار نہیں کیا گیا۔اس لیے وزیراعظم نے عاطف خان سمیت کسی بھی باغی رکن سے ملاقات کی ضرورت محسوس نہیں کی اور محمود خان اور پرویز خٹک کو کارروائی کا اختیار دے دیا‘ جس کے نتیجے میں وزیراعظم کے انتہائی قریبی سمجھے جانے والے وزرا عاطف خان ‘ شہرام ترکئی اورشکیل احمد کو برطرف کردیا گیا اور انہیں مستعفی ہونے کا آپشن بھی نہیں دیا گیا۔یاد رہے کہ عاطف خان وزیراعلیٰ بننے کی دوڑ میں شامل تھے‘ لیکن پرویز خٹک کے تحفظات پر انہیں وزیراعلیٰ نہیں بنایا گیا تھا؛ البتہ عمران خان نے انہیں سینئر وزیر بنایا‘ لیکن وہ محمود خان کو قبول نہ کرسکے اور یوں وزیراعظم عمران خان کا اعتماد بھی کھو دیا۔باغی گروپ کے اختلافات کی تازہ ترین وجہ بھی کوئی اصولی نہیں تھی ‘بلکہ ایسی تھی جسے بیان نہ کیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔بلوچستان میں سیاسی بغاوت کا جائزہ لینے کیلئے وزیراعظم نے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی کو کوئٹہ روانہ کیا‘ جہاں انہوں نے سپیکر عبدالقدوس بزنجو سے کامیاب مذاکرات کرکے ان کے تحفظات دور کیے اور یوں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کو بھی محفوظ کیا اور واضح پیغام دیا کہ اسلاآباد اپنے موجودہ وزرائے اعلیٰ کے ساتھ کھڑا ہے۔
بلوچستان اور کے پی کے میں باغیوں کو کچلنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے لاہور کا رخ کیا ۔ان کے لاہور پہنچنے سے پہلے ہی وہاں کے باغی گروپ کو واضح پیغام مل چکا تھا کہ کپتان کے نامزد کردہ عثمان بزدار کے خلا ف بلاواسطہ یا بالواسطہ کی جانے والی کسی منصوبہ بندی اور سازش کو وہ کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور پارٹی ڈسپلن کا سب کو پابند ہونا پڑے گا‘ بطور پارٹی سربراہ اور وزیراعظم ان کی ہدایات اور پالیسیوں کو لے کر آگے بڑھنا ہو گا اور باغیوں کی پارٹی میں کوئی گنجائش نہیں ‘تاہم لاہور میں نمبر گیمز کی وجہ سے ان کا رویہ جارحانہ نہیں تھا‘ سوائے اس کے کہ عثمان بزدار کو ہٹانا خارج از امکان ہے۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے عثمان بزدار سے تحفظات ظاہر کرنے والے اپنے دو معتمد ین عون چوہدری اور شہباز گل کو وزیراعظم پہلے ہی پنجاب بدر کرچکے ہیں۔دورہ لاہور کے دوران وزیراعظم نے مسلم لیگ (ق) کی قیادت سے ملاقات نہ کرکے بھی واضح پیغام دیا کہ وہ صرف پیار محبت اور صلح جوئی کی زبان سمجھتے ہیں ‘باغیانہ اندازِ تکلم سے وہ کبھی بھی کسی سے مرعوب نہیں ہوں گے۔وزیراعظم کو چوہدری صاحبان کے بارے میں بھی ایک معلوماتی رپورٹ پیش کی گئی‘ جس میں بتایا گیا ہے کہ سپیکر کا چیمبر جارحانہ سیاسی عزائم رکھتا ہے اور پی ٹی آئی کے ارکان کو بھی اپنی طرف راغب کرنے میں مصروف ہے۔ پی ٹی آئی کے کچھ ارکان پنجاب اسمبلی نے ذاتی طور پر بھی وزیراعظم کو ایسی ہی معلومات دیں‘ جس کے بعد یہ پیغام عمران خان نے سب کو دے دیا ہے کہ انہیں ان کے انداز اور سوچ کے مطابق اپنی سیاست کرنے دیں اور امورِ مملکت کے روزمرہ کے معمولات میں انہیں خودمختاری درکار ہے۔وہ نہ کسی کے کہنے پر ‘نہ کسی کی فرمائش پر‘نہ کسی کی خواہش پر اور نہ کسی کے دباؤ میں آکر اپنے کھلاڑیوں کو تبدیل کریں گے؛البتہ اب وزیراعظم باغیوں اور پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ٹف ٹائم دینے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ کیونکہ واقفان ِحال کا کہنا ہے کہ عمران خان شاید اب اپنی متعین کردہ سرخ لائن نہ خود عبور کریں گے اور نہ ہی کسی دوسرے کو سرخ لائن عبور کرنے دیں گے اور شاید پہلی بار وزیراعظم نے کہا ہے کہ وہ سازشیوں کو جانتے ہیں۔ ہماری اطلاع کے مطابق ‘عمران خان بقیہ اننگز فرنٹ فْٹ پر کھیلنا چاہتے ہیں۔جارحانہ کھیل کا نتیجہ کْچھ بھی نکلے وہ وکٹ کے چاروں طرف کھیلنا چاہتے ہیں‘ تاکہ پتا چل سکے کہ ان کے مخالفین انہیں آؤٹ کرنے کیلئے فیلڈنگ میں کیا نئی تبدیلیاں کرتے ہیں اور کونسا نیا پلیئر اور نئی تکنیک آزماتے ہیں ‘کیونکہ اب تک کی جانے والی تمام کوششوں کو وہ ڈی فیوز کرچکے ہیں۔فی الوقت عمران خان اپنے مخالفین کو چْپ کروانے میں کامیاب ہوچکے ہیں ‘لیکن یہ بھی ایک سیاسی حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کی مرکزی اور صوبائی حکومتیں گرانے کیلئے بہرحال منظم اور سنجیدہ کوششیں جاری رہیں گی‘ کیونکہ سیاسی بغاوتوں کو مکمل طور پر کچلنا اتنا آسان نہیں ہوتا اوروقتی طور پر ناکام سیاسی کھلاڑی بھلا کب سکون سے بیٹھیں گے‘ بلکہ اگر ان کی واپسی نہ ہوئی تو وہ بھی میڈیا میں آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
دوسری جانب ایک سازشی کہانی جاتی امرا اور لندن کے درمیان گھوم رہی ہے۔مریم نواز نے بھی سیاسی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے اور حال ہی میں ان سے پارٹی کے تین چار رہنماؤں نے ملاقات کی‘ جس میں مریم بی بی نے نئی حکمت عملی سے آگاہ کیا اور توقع ظاہر کی کہ مشکل وقت کم و بیش گزر چکا ہے ۔شاہد خاقان عباسی بھی جلد اپنے کارکنوں کے درمیان ہوں گے۔ نواز شریف کی تازہ ہدایات کے مطابق سخت گیر مؤقف کے بیانیے کو فی الوقت روک دیا جائے اور نرم نرم گفتگو کی جائے۔مریم بی بی اپنے قائد نوازشریف کو اس بات پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوچکی ہیں کہ شہباز شریف پر سرخ دائرہ کھینچ دیا جائے اور انہیں کوئی ٹاسک نہ دیا جائے۔ یہ خبر بھی ہے کہ اِن ہاؤس تبدیلی کی صورت میں چھوٹے صوبے کے نام قرعہ نکالا جائے گااور ایک کثیر الجماعتی حکومت بنانے کی کوشش کی جائے ‘جو بعد ازاں سیر حاصل آئینی اصلاحات کرے اور خوشگوارماحول میں نئے انتخابات کا بندوبست کرے۔دیکھئے یہ سازشی کہانی مکمل ہوتی ہے یا پھر اس کو بھی عمران خان ڈی فیوز کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے‘ کیونکہ خان کے رفقا کا دعویٰ ہے کہ اٹھارہ ماہ کے تجربے کے بعد وزیراعظم راج نیتی کو سمجھنے میں کافی مہارت حاصل کرچکے ہیں اور ان کی راج دھانی میں کون کس کے ساتھ مل کر کیا کررہا ہے ‘خان کو کافی حد تک اس سے اب آگاہ ہوتے ہیں۔