غریب کی بیماری

تحریر : جویریہ کی ڈائری : جویریہ صدیق

میں ایک چوکیدار ہوں۔ راتوں کو جاگ کر بازار کی رکھوالی کرتا ہوں۔ جب ساری دنیا سو رہی ہوتی ہے، میں جاگ کر ان دکانوں کی حفاظت کرتا ہوں جن میں لاکھوں کا مال ہے۔ میرے پاس ان دکانوں کی حفاظت کے لئے ایک ڈنڈا ہے اور بھروسہ ہے کہ انشاء اللہ کچھ نہیں ہوگا۔ اسلحہ نہیں ہے میرے پاس۔ کبھی کوئی مشکوک شخص نظر آئے تو میں سیٹی بجا دیتا ہوں اور ڈنڈا زور سے زمین پر مار دیتا ہوں۔ رات 1 بجے سے صبح 9 بجے تک میری ڈیوٹی ہوتی ہے۔ میں ہوتا ہوں، تنہائی، آسمان پر تارے اور لمبی رات۔ کبھی آوارہ کتے بھی میرے پاس بیٹھ جاتے ہیں۔ گرمی میں مچھر خوب ستاتے ہیں۔ ہاتھ کے پنکھے سے ہوا لیتا ہوں تاکہ گرمی کا احساس کچھ کم ہو، پر موٹی نیلی وردی میں گرمی بہت لگتی ہے اور جسم گرمی دانوں سے بھر جاتا ہے۔ جب خارش کرتا ہوں تو ان دانوں سے خون نکل کر مزید اذیت سے دوچار کر دیتا ہے۔ حبس، گرمی اور پسینہ، لیکن یہ چوکیداری ہی میری روزی ہے۔ میری بیوی شبانہ میرے لئے اسٹیل کے ٹفن میں روٹی اور سالن رکھ دیتی ہے۔ صبح ناشتے کے طور یہ رات کا کھانا کھا لیتا ہوں اور بازار میں لگے نلکے سے پانی پیٹ بھر کر پی لیتا ہوں۔ جب گرمی ستاتی ہے تو اسی پانی سے وضو کر لیتا ہوں تاکہ تازہ دم ہوجاؤں۔گرمی تو جیسے تیسے گزر جاتی ہے لیکن سردی گزارنا بہت مشکل کام ہے۔ لاہور کی سردی اور دھند، ایسا لگتا ہے جیسے یہ سرد ہوائیں میرے جسم میں پیوست ہوکر مجھے چھلنی کر رہی ہیں۔ تھوڑے کاغذ اور ٹہنیاں جمع کر کے بناسپتی کے پرانے ڈبے میں آگ لگا لیتا ہوں لیکن لاہور کی ٹھنڈ مجھے چین نہیں لینے دیتی۔ لنڈے کی جرسی، شال اور ٹوپی بوسیدہ ہوگئے ہیں اور جرابوں میں تو بڑے بڑے سوارخ ہیں لیکن بچوں کی سکول فیس، گھر کا بجلی کا بل اور راشن کے لیے پیسے ہونا زیادہ ضروری ہیں۔ میرا کیا ہے، میں تو صبر کر لوں۔ جب زیادہ ٹھنڈ لگتی تو دکانوں کی راہداری میں پناہ لے لیتا۔ سردی کی صبح جب میں اپنا ٹفن کھولتا تو سالن برف کی طرح جم جاتا اور روٹی ایسے جیسے پاپڑ ہوں۔ روٹی کو نل کے پانی سے گیلا کرکے اور سالن کو تھوڑی دیر آگ کے قریب گرم کرکے ہنسی خوشی کھا لیتا۔ بازار والے تنخواہ اتنی دیتے تھے کہ میری گزر بسر ہو جاتی۔پر قدرت کو ابھی امتحان مزید منظور تھا۔سردی میں میرے بائیں بازو میں درد ہوا، جب میں بازار کے چکر لگاتا تو سانس پھولنے لگتی۔ تھکاوٹ محسوس ہوتی۔ پہلے 10 دن تو میں نظر انداز کرتا رہا، کبھی سگریٹ نہیں پیا تھا، غذا بھی سادہ کھاتا تھا، پر درد بڑھتا گیا۔حکیم سے دوا لی، بیٹے نے مالش کردی، پرانا گرم کپڑا باندھ لیا لیکن درد نہیں جا رہا تھا۔ دل کے بڑے ہسپتال گیا، بہت رش تھا۔ دو بار میری باری آنے تک ڈاکٹر صاحب ہی اٹھ گئے۔ میں ڈیوٹی ختم ہوتے ہی صبح سرکاری ہسپتال چلا جاتا۔ آخرکار مجھے 5 دن بعد ڈاکٹر صاحب مل گئے۔ انہوں نے کہا دل کا کوئی مسئلہ ہے۔ ای سی جی اور انجیوگرافی لکھ دی۔سرکاری ہسپتال میں مجھے ای سی جی کے لئے 10 دن بعد کا وقت ملا اور انجیو گرافی کا وقت دو ماہ بعد کا ملا۔ گھر واپس آ گیا۔ محلے کے میڈیکل سٹور والے سے میں نے پوچھا درد کے لئے کون سی دوا ہے؟ درد ختم کرنے کی سستی سی دوائیں خرید کر گھر آگیا۔ جب بھی درد ہوتا تو درد ختم کرنے کی دوا کھا لیتا۔ میری اتنی حیثیت نہیں تھی کہ اپنے علاج پر پیسے خرچ کرتا ورنہ میرے بچے بھوکے رہ جاتے۔ ان کے پیسے خود پر نہیں لگا سکتا تھا۔ اس دن بہت ٹھنڈ تھی۔ بس اچانک سینے میں درد ہوا اور میں بیہوش ہوگیا۔جب آنکھ کھلی تو میں ایک اچھے ہسپتال میں تھا۔ میرے تمام ٹیسٹ ہو چکے تھے، جن کا خرچہ دکاندار اٹھا چکے تھے، میرے لئے دوائیں بھی خریدی جا چکی تھیں۔ ڈاکٹرز نے مجھے کہا کہ میرے دل کی نالیاں تنگ ہوگئی ہیں اس لئے میرے دل میں اسٹنٹ ڈالیں گے، اگلے مہینے ڈیڑھ لاکھ لے آؤ، کام ہوجائے گا۔ میں چپ کرکے ہسپتال سے گھر آگیا۔ دوا سے طبیعت سنبھل گئی۔ دو دن بعد کام پر جانا شروع کر دیا۔ دکانداروں نے میری خیریت دریافت کی تو کہا کہ میں ٹھیک ہوں۔لیکن میں بہت دل گرفتہ ہوا۔ میری غیر موجودگی میں دوسرے گارڈ کو نوکری دے دی گئی اور مجھے تنخواہ کے ساتھ الگ سے 10 ہزار تھما کر نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ میں بہت رویا۔ گھر آیا۔ بچوں کو سب صورتحال پتہ تھی۔ بیٹی نے کالج کے بعد کپڑے سینا شروع کردئیے اور بیٹا سکول کے بعد رفیق کے ہوٹل پر بیرا لگ گیا۔ میری بیوی مجھے آلو کی ٹکیاں بنا کر دینے لگی۔ میں چھوٹے سے تھال میں سجا کر صبح وہ ٹکیاں بیچتا اور رات کو گرم انڈے۔ دوبارہ سے گھر کی گاڑی چل پڑی۔ میری دوائیں ختم ہوگئیں۔ میں جب ان کو خریدنے گیا تو ان کی قیمت ڈبل ہوگئی تھی۔ میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے۔ درد ختم کرنے والی گولیاں خریدیں اور کام میں لگ گیا۔مجھے اب بھی بہت درد تھا، دل پر بوجھ محسوس ہوتا، سانس لینے میں تکلیف ہوتی، مگر دوااور علاج کے لئے پیسے نہیں تھے۔ جب دوبارہ دوا کی نئی قیمت کے پیسے جمع ہوئے، میں میڈیکل اسٹور گیا تو قیمت پھر زیادہ ہوگئی تھی۔ میں نے پھر بس درد ختم کرنے کی دوا لی اور بوجھل قدموں سے واپس آگیا۔ اس رات میرے دل کی دھڑکن بھی مایوس ہوکر تھم گئی۔ قبر بھی مہنگی ہوگئی ہے۔ میرا بیٹا میری لاش کے پاس کھڑا سوچ رہا ہے مجھے دفنائے کیسے۔ غریب کے لئے زندگی آسان ہے نہ موت۔