شادی میں تاخیر نہ کریں
اسد اور نمرہ کی شادی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور بہت سے لوگ ان کو تنقید کا نشانہ بنانے لگے۔اسد اے لیول کے اسٹوڈنٹ ہیں اور نمرہ ایف ایس سی کی طالبہ ہیں۔یہ دونوں 18 سال کے ہیں اور شرعی اور قانونی طور پر انکی شادی جائز ہے۔کچھ لوگ اس بات پر تنقید کرنے لگے کہ بچوں نے شادی کرلی اور کچھ لوگ یہ کہنے لگے کہ لڑکا لڑکی سے چھوٹا ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں لیکن اس غیر ضروری تنقید کی وجہ سے پھر بہت سے دیگر لوگوں نے اس نئے شادی شدہ جوڑے کی سپورٹ میں بات شروع کر دی۔سب سے پہلے تو نمرہ اور اسد شادی بہت مبارک ہو ! اللہ تم دونوں کو بہت ساری خوشیاں دے اور تم دونوں زندگی میں ہمیشہ کامیاب رہو، آمین۔آج سے تیس سال قبل پاکستان میں اس ہی عمر میں شادی کا رواج تھا، لڑکی کی عمر سولہ سے اٹھارہ سال ہوتی تھی اور لڑکا 18 سے 20 سال کا ہوتا تھا پھر شادی کردی جاتی تھی۔کچھ عرصہ والدین اپنے ساتھ رکھتے تھے جب بچے اپنے پیروں پر کھڑے ہوجاتے تھے ان کو الگ گھر میں جانے کی اجازت دے دی جاتی تھی۔ اس دوران نیا جوڑا اپنی تعلیم بھی مکمل کر لیتا تھا ، پیروں پر بھی کھڑا ہوجاتا تھا اور بچے بھی پیدا ہو جاتے تھے۔ نئے شادی شدہ جوڑے کو خاندان کی طرف سے مکمل مدد ملتی تھی اور بچے بھی دادی نانی پال رہی ہوتی تھی۔تاہم گذشتہ پندرہ برس سے یہ رواج بالکل بدل گیا۔ خاندانی نظام میں بہت سے مشترکہ خاندان ختم ہوگئے ،لوگ اکیلے رہنے کو ترجیح دینے لگے۔مادیت پسندی فروغ پاگئی ، رشتے پیچھے رہ گئے۔اب والدین اور خود اولاد کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ پہلے تعلیم مکمل ہو پھر اچھی جاب ملے،لڑکا مالی طور پر سیٹ ہو،پھر ہی شادی کی جائے۔اس کوشش میں لڑکی کی عمر 25 سال ہو جاتی ہے اور لڑکا 30 کراس کر جاتا ہے۔ایک دوسرے کے گھر ، بینک بیلنس د یکھے جاتے ہیں۔15 سے 20 دن شادی کی تقریبات چلتی ہیں جوکہ افسوسناک امر ہے ،یہ معاشرے میں طبقاتی فرق اور گھٹن بڑھا رہا ہے۔ جولوگ اپنی مرضی سے شادی میں تاخیر کرتے ہیں ،ہم انہیں زیر بحث نہیں لائیں گے ہر انسان کی مرضی ہے کہ اپنے مطابق زندگی بسر کرے۔تاہم جو جلد شادی کے خواہش مند ہوتے ہیں اور والدین کی ذمہ داریاں ان کو شادی نہیں کرنے دیتیں ،میں ان سے مخاطب ہوں۔شادی کبھی بھی انسان کو ترقی یا کام سے روکتی۔حلال رشتے میں جڑنے سے زندگی میں برکت آتی ہے،رزق میں اضافہ ہوتا ہے۔زندگی میں پیار محبت زندگی کو آسان اور خوبصورت بنا دیتا ہے۔انسان مل کر زندگی میں جدوجہد کرتا ہے اور اپنے خاندان کے ساتھ زندگی کی خوشیاں انجوائے کرتا ہے۔جلد شادی سے انسان اپنی اولاد اور انکی اولاد کی خوشیاں دیکھ لیتا ہے۔دیر سے شادی کے بہت سے نقصانات ہیں، لڑکا لڑکی بے راہ روی کا شکار ہوسکتے ہیں، انکی معصومیت سے کوئی کھیل سکتا ہے، ان کو بلیک میل کرسکتا ہے۔بچے اب جلدی بلوغت کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں اور انکی جذباتی نفسیاتی جسمانی خواہشات ان کو جرائم میں مبتلا کرسکتی ہیں۔اس لئے والدین بچوں سے دوستی کا رشتہ رکھیں اور اگر یہ دیکھیں کہ انکی دلچسپی شادی میں ہے تو 18 سال کے بعد انکی شادی کردیں۔شادی میں تاخیر بے اولادی کا بہت بڑا سبب ہے۔عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے مطابق ڈھلنا بھی مشکل ہو جاتا ہے ایڈجسٹ ہونے میں پرابلم ہوتی ہے اور بات طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ تعلیم، کیرئیر سب شادی کے ساتھ چل سکتے ہیں۔ اولاد کی نفسیاتی جذباتی ضروریات کو سمجھنا والدین کا اولین فرض ہے۔ شادی کو آسان کریں اور جہیز پر پابندی لگائیں تا کہ معاشرے سے زیادتی کا خاتمہ ہو جائے۔ اسد اور نمرہ نے جلد شادی کا فیصلہ کیا ، وہ پڑھے لکھے ہیں ، بالغ ہیں، سمجھدار ہیں اور اٹھارہ سال کے ہیں اگر وہ ازدواجی زندگی شروع کرنے کے خواہش مند ہیں تو مذہب اور قانون ان کو اس بات کی اجازت دیتا ہے۔کتنے ہی بچے بچیاں صرف اس لئے بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں کہ جہیز ، پیسے، کیرئیر، ذات برادری کے نام پر ان کی شادیوں کی تاخیر کی جاتی ہے۔ معاشرے میں بیٹھے ہوس کے شکاری شادی کے نام پر ان سے دھوکا کرسکتے ہیں اور ان کی عصمت دری کرسکتے ہیں۔ یہ بچے بچیاں ایسی افسوناک صورتحال سے گزرنے کے بعد خودکشی کرلیتے ہیں ۔ والدین کے علاوہ پورا معاشرہ ان حقیقتوں سے آگاہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ دیکھا گیا ہے کہ لڑکوں کو پیسوں کی مشین سمجھ کر بیرون ملک بھیج دیا جاتا ہے۔ اکثر 5/6 بہن بھائیوں کی شادی کے بعد جب اس کی شادی کا نمبر آتا ہے تو اس کی عمر چالیس کے قریب ہو جاتی ہے ۔ خاندان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کمائو پوت کو اپنی بیوی باہرنہ لے جانے دی جائے ۔یہ استحصال ختم ہونا چاہے ۔ بچوں کی شادیاں 18 سے 25 سال کی عمر تک ضرور کردیں اور ان کے درمیان جدائی نہ ڈالیں۔